Thursday, March 25, 2010

کتابیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ازگلزار

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے

بڑی حسرت سے تکتی ہیں

مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں

جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں ، اب اکثر

گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر

بڑی بےچین رہتی ہیں

انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہوگئی ہے

بڑی حسرت سے تکتی ہیں

جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔۔۔

کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے

وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں

جو رشتے وہ سناتی تھیں

وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں

کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے

کئی لفظوں کے معنی گرپڑے ہیں

بنا پتوں کےسوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ

جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے

بہت سی اصطلاحیں ہیں ۔۔۔۔

جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں

گلاسوں نے انہیں متروک کرڈالا

زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا

اب انگلی کلک کرنے سے بس اک

جھپکی گزرتی ہے۔۔۔۔۔

بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر

کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے

کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے

کبھی گودی میں لیتے تھے

کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بناکر

نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے چھوتے تھے جبیں سے

خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی

مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول

کتابیں مانگنے گرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے

ان کا کیا ہوگا

وہ شاید اب نہیں ہوں گے

دیر آمد۔۔۔۔۔گلزار کی شاعری

آٹھ ہی بلئین عمر زمیں کی ہوگی شاید
ایسا ہی اندازہ ہے کچھ سائنس کا
چار اعشاریہ چھ بلین سالوں کی عمر تو بیت چکی ہے
کتنی دیر لگادی تم نے آنے میں
اور اب مل کر
کس دنیا کی دنیاداری سوچ رہی ہو
کس مذہب کی ذات پات کی فکر لگی ہے
آو چلیں اب
تین ہی بلئین سال بچے ہیں

Monday, March 22, 2010

آئینہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از روشنی

منافقت سے بھری یہ دنیا
جس کے رگ و پے میں
خود غرضی اور تصنع کا زہر بھرا ہے
عیاری کے لبادے میں ملبوس
بے چہرہ لوگ
جو کسی جنگلی درندے سے بھی زیادہ
بھیانک ہیں
نرم لہجوں میں ملفوف
اپنائیت کے بناوٹی جذبے۔۔۔۔۔۔۔۔
جو اکثر راہ کھوٹی کرتے ہیں
اس تعفن زدہ ماحول میں تو
سانس لینا بھی دوبھر ہے
اور لوگ اسے زندگی کہتے ہیں

Friday, March 19, 2010

خوشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از روشنی

خوشی ----احساس کے بے کراں سمندر کا

اک گمنام جزیرہ ہے

اَن دیکھا اور ان جانا سا سفر

سبھی اُس کی تلاش میں بھٹکتے ہیں

پر کبھی پہنچ نہیں پاتے

آخر تھک ہار کر --- بےبس ہوکر شاید

پڑاو ہی کو منزل سمجھ لیتے ہیں

میں اور تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از روشنی

میں اور تم
ندی کے دوکنارے
تعلق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِن کناروں میں بہتا پانی
اِسے میلا نہ ہونے دو

Wednesday, March 17, 2010

ایک شعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آدم خور درندے فارغ بیٹھ گئے

جب سے دہشت پر مائل انسان ہُوئے

Wednesday, March 10, 2010

خوف ۔۔۔۔۔۔۔۔از روشنی

اک خوف بچپن سے میرے من میں چھُپا ہے
کھودینے کا خوف۔۔۔۔۔۔۔
میں نے برسوں کِسی کو اپنا نہ کیا
شاید مجھ میں کھودینے کی ہمت نہیں تھی
میں نے کبھی خوشیوں کی خواہش بھی نہیں کی
خوشیاں ہمیشہ ریت کی مانند میری مٹھی سے پھسل جاتی تھیں
تب میں نے خوشیاں بانٹنا سیکھا
اور دن بدن مضبوط تر ہوتی گئی
پر اب۔۔۔۔۔۔۔۔
میری ذات کے قلعے میں دراڑ پڑنے لگی ہے
۔۔۔۔۔
مجھے پھر سے خوشیوں کی خواہش ہونے لگی ہے
!!!!!!!!!!!!
اور وہ بچپن کا خوف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, March 8, 2010

Ego..........

کبھی سوچا ہے تم نے یہ
اگر ہم مِل بھی جائیں تو
گزارا ہونہیں سکتا
نہ تم خود کو میرے سانچے میں ڈھالوگے
نہ میں اپنی روِش کو چھوڑ پاوں گی
تم اپنے عشق پہ نازاں
مَیں اپنے حُسن پہ فاخر
یوں ہم دونوں
اپنی اپنی جگہ پہ
انا کے خول میں لپٹے ہوئے
ریشم کے کیڑے ہیں
ناممکن کمپرومائز
نہ سمجھوتے کی گنجائش
تو کیا بہتر نہیں ہے یہ
کہ ہم دونوں
بچھڑنے کی اذیت سے ہی نہ گزریں
نہ تم کو یاد آوں میں
نہ مجھ کو یاد آو تم
تمھیں میں بھول جاوں اور
مجھے بھی بھول جاو تم