میں اپنے بزنس کے سلسلے میں
کبھی کبھی اس کے شہر جاتا ہوں
توگزرتا ہوں اس گلی سے
وہ نیم تاریک سی گلی
اور اس کے نکڑ پہ اونگھتا سا
پرانا اک روشنی کا کھمبا
جس کے نیچے تمام شب انتظار کر کے
میں چھوڑ آیا تھا شہر اُس کا
بہت ہی خستہ سی روشنی کو ٹیکے
وہ کھمبا اب بھی وہیں کھڑا ہے
میں کھمبے کے پاس جا کر
نظر بچا کر محلے والوں کی
پوچھ لیتا ہوں آج بھی یہ
ہ میرے جانے کے بعد آئی تو نہیں تھی