Sunday, February 8, 2009

ہم کیسے پاگل ہوتے تھے۔۔

ہم کیسےپاگل ہوتے تھے
اک پھول کو چھونے کی خاطر
کانٹوں سے زخمی ہوتے تھے
جو پھول جھولی میں آگرتا
اسے چھونے سے ڈر جاتے تھے
ہم کیسے پاگل ہوتے تھے
کہ دھندلے آئینوں میں اپنا عکس ڈھونڈا کرتے تھے
اور کرچیاں چٹخے آئینوں کی مٹھی میں دبایا کرتے تھے
ہم کیسے پاگل ہوتے تھے
جب سڑک پر چلنا ہوتا تھا، ہم کشتی لے کر چلتے تھے
اور بیچ بھنور جانے کے لیے ہم پیدل نکلا کرتے تھے
ہم کیسے پاگل ہوتے تھے
جب بارش برسا کرتی تھی ہم چھتری میں چھپ جاتے تھے
اور جلتی دھوپ میں ننگے سر ہم چھت پہ اچھلا کرتے تھے
جب ساری دنیا سوتی تھی ہم چاند سے کھیلا کرتے تھے
جب ساری دنیا جاگ اٹھتی، ہم تھک کر پھر سوجاتے تھے
ہم کیسے پاگل ہوتے تھے
ہم آج بھی ویسے پاگل ہیں

اے عمر رواں آہستہ چل۔۔۔ابھی خاصا قرض چکانا ہے۔۔۔

کچھ خواب ہیں جن کو لکھنا ہے
تعبیر کی صورت دینی ہے
کچھ لوگ ہیں اجڑے دل والے
جنھیں اپنی محبت دینی ہے
کچھ پھول ہیں جن کو چننا ہے
اور ہار کی صورت دینی ہے
کچھ نیندیں اپنی باقی ہیں
جنھیں بانٹنا ہے کچھ لوگوں میں
ان کو بھی تو راحت دینی ہے
اے عمر رواں !آہستہ چل
ابھی خاصا قرض چکانا ہے

محبت مربھی سکتی ہے۔۔۔۔

جسے تم زندگی جانو
تمھیں وہ روگ کہتا ہو
کہ جس نے خو د ہی چاہت سے
تمھارا ہاتھ تھاما ہو
وہ اپنے دل کے دروازے
تمھی پر بند کردے تو
محبت مر بھی سکتی ہے
تمھیں سنگسار کرنے کو
جو سنگ بانٹے لوگوں میں
صبا کو روکنے کو قفل ڈالے دریچوں میں
کرکے بند گھر کو
سانس پر پہرے لگائے تو
محبت مر بھی سکتی ہے
یہ کس نے کہہ دیا تم سے
محبت مر نہیں سکتی
کہ جب کوئی تمھیں جاں سے گزرجانے کو کہتا ہو
آدھی راہ میں خود ہی مڑجانے کو کہتا ہو
وہ اپنی بےوفائی کا خود ہی اعتراف کرلے تو
محبت مربھی سکتی ہے