ہم کیسےپاگل ہوتے تھے
اک پھول کو چھونے کی خاطر
کانٹوں سے زخمی ہوتے تھے
جو پھول جھولی میں آگرتا
اسے چھونے سے ڈر جاتے تھے
ہم کیسے پاگل ہوتے تھے
کہ دھندلے آئینوں میں اپنا عکس ڈھونڈا کرتے تھے
اور کرچیاں چٹخے آئینوں کی مٹھی میں دبایا کرتے تھے
ہم کیسے پاگل ہوتے تھے
جب سڑک پر چلنا ہوتا تھا، ہم کشتی لے کر چلتے تھے
اور بیچ بھنور جانے کے لیے ہم پیدل نکلا کرتے تھے
ہم کیسے پاگل ہوتے تھے
جب بارش برسا کرتی تھی ہم چھتری میں چھپ جاتے تھے
اور جلتی دھوپ میں ننگے سر ہم چھت پہ اچھلا کرتے تھے
جب ساری دنیا سوتی تھی ہم چاند سے کھیلا کرتے تھے
جب ساری دنیا جاگ اٹھتی، ہم تھک کر پھر سوجاتے تھے
ہم کیسے پاگل ہوتے تھے
ہم آج بھی ویسے پاگل ہیں
اک پھول کو چھونے کی خاطر
کانٹوں سے زخمی ہوتے تھے
جو پھول جھولی میں آگرتا
اسے چھونے سے ڈر جاتے تھے
ہم کیسے پاگل ہوتے تھے
کہ دھندلے آئینوں میں اپنا عکس ڈھونڈا کرتے تھے
اور کرچیاں چٹخے آئینوں کی مٹھی میں دبایا کرتے تھے
ہم کیسے پاگل ہوتے تھے
جب سڑک پر چلنا ہوتا تھا، ہم کشتی لے کر چلتے تھے
اور بیچ بھنور جانے کے لیے ہم پیدل نکلا کرتے تھے
ہم کیسے پاگل ہوتے تھے
جب بارش برسا کرتی تھی ہم چھتری میں چھپ جاتے تھے
اور جلتی دھوپ میں ننگے سر ہم چھت پہ اچھلا کرتے تھے
جب ساری دنیا سوتی تھی ہم چاند سے کھیلا کرتے تھے
جب ساری دنیا جاگ اٹھتی، ہم تھک کر پھر سوجاتے تھے
ہم کیسے پاگل ہوتے تھے
ہم آج بھی ویسے پاگل ہیں
ایسے خوبصورت پاگل پن پر تو سارے جہاں کی دانائی قربان کی جاسکتی ہے۔بہت خوبصورت لکھا ہے آپ نے۔
ReplyDeleteایسے خوبصورت پاگل پن پر تو سارے جہاں کی دانائی قربان کی جاسکتی ہے۔بہت خوبصورت لکھا ہے آپ نے۔
ReplyDelete