Wednesday, June 24, 2009

متفرق اشعار

مجھے انکار ہی کردے مگر کچھ گفتگو تو کر
تیرا خاموش سا رہنا مجھے تکلیف دیتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری تڑپ سے نہ تڑپا تھا میرا دل لیکن
تیرے سکون سے بے چین ہوگیا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے معلوم ہے میرا مقدر تم نہیں لیکن
میری تقدیر سے چھپ کر میرے اک بار ہوجاو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا کیا جو مجھ کو فراموش کردیا

Friday, June 19, 2009

ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہرکام کرنے میں۔۔۔۔

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں

ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو

بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو

بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو

کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو

حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

اج آکھاں واث شاہ نوں ۔۔۔۔۔

اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول

تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول

اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ پائے وین

اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن

اٹھ دردمنداں دیا دردیا تک اپنا دیس پنجاب

اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب

کسے نے پنجاں پانیاں وچ اج دتی زہر رلا

تے اوہناں پانیاں نوں دتا دھرت نوں لا

جتھے وجدی پھوک پیار دی او ونجلی گئی گواچ

رانجھے دے سب ویر، اج بھل گئے اوس دی جاچ

دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیّئاں چون

پریت دیاں شہزادیاں اج وچ مزاراں رون

اج تے سبے کیدو بن گئے حسن عشق دے چور

اج کتھوں لیاییے لبھ کے وارث شاہ اک ہور


بے امر مجبوری۔۔۔۔

بارشوں کا موسم ہے
روح کی فضاؤں میں
غمزدہ ہوائیں ہیں
بے سبب اداسی ہے
اس عجیب موسم میں
بےقرار راتوں کی
بےشمار باتیں ہیں
ان گنت فسانے ہیں
جو بہت خاموشی سے
دل پہ سہتے پھرتے ہیں
اور
بے امر سی مجبوری
سب سے کہتے پھرتے ہیں

Thursday, June 18, 2009

پنجابی شاعری

توں لکھ بھلا کے ویکھ سانوں
اسی یاری فیر وی نبھاواں گے
توں پانی پی پی تھک جا سیں
اسیں ہچکیاں بن بن آواں گے

دو اشعار

اڑنے لگے وجود کے ذرے ہوا کے ساتھ
میں اس قدر خلوص سے بکھرا کبھی نہ تھا
سورج کے ساتھ ڈوب گیا میرا دل بھی آج
اتنا اداس شام کا منظر کبھی نہ تھا ۔۔۔۔۔

چلو اک اور دنیا میں تمھارے ساتھ چلتے ہیں۔۔۔۔۔

چلو اک اور دنیا میں تمھارے ساتھ چلتے ہیں
جہاں حالات کچھ بھی ہوں
مگر ہم ساتھ رہتے ہوں
جہاں موسم کوئی بھی ہو
جدائی کا نہ ہو لیکن
جہاں کا چاند بھی تم ہو
جہاں سورج، ہوا روشنی،خوشبووں کا رنگ تم سے ہو
جہاں پہ دل دھڑکنے کا ہر اک احساس تم سے ہو
جہاں پہ میرے جینے کی ساری آس تم سے ہو
چلو اک اور دنیا میں تمھارے ساتھ چلتے ہیں

Wednesday, June 17, 2009

میری پسند

کٹھن سفر ہے محبتوں کا سراب رستے ہیں سوچ لینا

وہ چھوڑ جاتے ہیں اک قدم پر جو ساتھ چلتے ہیں سوچ لینا

یہ ریت تم نہ نبھا سکوگے نہ سنگ رہنے کی بات کرنا

کہ عشق والوں کی رہ گزر میں چناب آتے ہیں سوچ لینا

تمھیں کہا تھا کہ بن کے اپنا فریب دیتا ہے یہ زمانہ

تمھیں کہا تھا کہ آستینوں میں سانپ پلتے ہیں سوچ لینا

وہ بستی جہاں پہ ہم تم ملے تھے مل کے بچھڑ گئے تھے

وہاں پہ اب بھی مری وفا کے چراغ جلتے ہیں سوچ لینا


نظم از محسن نقوی

تم اگر ٹوٹ جاؤ تم اگر بکھر جاؤ بےبسی میں گھر جاؤ

دل سے اک صدا دینا بس مجھے بھلا دینا

میں تمھیں سنبھالوں گا

زندگی میں چلنے کا

راستہ بدلنے کا

اک ہنر سکھا دوں گا

تم کو حوصلہ دوں گا

اور جب سنبھل جاؤ

روشنی میں ڈھل جاؤ

مجھ کو یوں صلہ دینا

تم مجھے بھلا دینا


Tuesday, June 9, 2009

قسمت

ہاتھ کی لکیروں میں کیا تلاش کرتے ہو؟

ان فضول باتوں میں کس لیے الجھتے ہو؟

جس کو ملنا ہوتا ہے

بن لکیر دیکھے ہی

زندگی کے رستوں پر

ساتھ ساتھ چلتا ہے

پھر کہاں بچھڑتا ہے

جو نہیں مقدر میں

کب ہمیں وہ ملتا ہے؟

کب وہ ساتھ چلتا ہے؟

ہاتھ کی لکیروں میں

کیا تلاش کرتے ہو

زندگی سے ڈرتے ہو؟؟؟؟؟؟


زندگی سے ڈرتے ہو

زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں

آدمی سے ڈرتے ہو

آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں

آدمی زباں بھی ہے آدمی بیاں بھی ہے

اس سے تم نہیں ڈرتے

حرف اور معنی کےر شتہ ہائے آہن سے

آدمی ہے وابستہ

آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ

اس سے تم نہیں ڈرتے

ان کہی سے ڈرتے ہو؟

جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو؟

اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو؟

۔۔۔۔۔۔ پہلے بھی تو گزرے ہیں

دور نارسائی کے، بے ریا خدائی کے

پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی

یہ شب زباں بندی ہے رہ خدا وندی

مگر تم کیا جانو؟

لب اگر نہیں ہلتے

ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں راہ کا نشاں بن کر

نور کی زبان بن کر

ہاتھ بول اٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر

روشنی سے ڈرتے ہو؟

روشنی تو تم بھی ہو روشنی تو ہم بھی ہیں

روشنی سے ڈرتے ہو

۔۔۔۔شہر کی فصیلوں پر

دیو کا جو سایہ تھا پاک ہوگیا آخر

رات کا لبادہ بھی

چاک ہو گیا آخر، خاک ہوگیا آخر

اژدہام انساں سے فرو کی نوا آئی

ذات کی صدا آئی

راہ شوق میں جیسے راہرو کا خون لپکے

اک نیا جنوں لپکے

آدمی چھلک اٹھے

آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو

تم ابھی سے ڈرتے ہو؟