Monday, February 14, 2011

کسے یاد اتنے حساب ہیں؟؟؟؟

وہی آہٹیں دروبام پر وہی رتجگوں کے عذاب ہیں
وہی ادھ بجھی میری نیند ہے، وہی ادھ جلے مرے خواب ہیں

میرے سامنے یہ جو کہکشاں کی ہے دھند حد نگاہ تک
پرے اس کے جانے حقیقتیں یا حقیقتوں کے سراب ہیں

کبھی چاہا خود کو سمیٹنا تو بکھر کے اور بھی رہ گئے
ہیں جو کرچی کرچی پڑے ہوئےمیرےسامنے میرے خواب ہیں

یہ نہ پوچھ کیسے بسر کیے، شب و روز کتنے پہر جیے
کسے رات دن کی تمیز تھی کسے یاد اتنے حساب ہیں

1 comment: