Monday, September 19, 2011

:)

درخت جاں پہ عذاب رت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے

بہار وادی سے جتنے پنچھی ادھر کو آئے ملول آئے

وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں

ہمارے حصے میں عذر آئے ، جواز آئے ، اصول آئے

Friday, September 16, 2011

Busssss!!!!!

ایسا ٹوٹا ہے تمناؤں کا پندار کہ بس
دل نے جھیلے ہیں محبت میں وہ خار کہ بس


ایک لمحے میں زمانے میرے ہاتھوں سے گئے

اس قدر تیز ہوئی وقت کی رفتار کہ بس


تو کبھی رکھ کے دیکھ مجھ کو بازار کے بیچ
اس طرح ٹوٹ کر آئیں گے خریدار کہ بس


کل بھی صدیوں کی مسافت سے پرے تھے دونوں

درمیاں آج بھی پڑتی ہے وہ دیوار کہ بس


یہ تو ایک ضد ہے کہ میں شکایت نہ کروں

ورنہ شکوے تو اتنے ہیں میرے یار کہ بس