تمھارے قافلے کا ہر گھڑی منظر بدلتا ہے
کبھی رہزن بدلتا ہے، کبھی رہبر بدلتا ہے
لباسِ فاخرہ کی آرزو تو سب کو ہے لیکن
کہاں ملبوس کے اندر کوئی پیکر بدلتا ہے
تم اک انسان کے بدلے ہوئے تیور پہ حیراں ہو
یہ وہ موسم ہے کہ پنچھی بھی اپنے پر بدلتا ہے
تم اک انسان کے بدلے ہوئے تیور پہ حیراں ہو
یہ وہ موسم ہے کہ پنچھی بھی اپنے پر بدلتا ہے
چٹانوں سے اسے میں نے محبت سے تراشا ہے
بس اب یہ دیکھنا ہے رنگ کب پتھر بدلتا ہے
اسے تو شوق ہے ہر دل میں یو جا کر ٹھہرنے کا
وہ کچھ ہی روز میں اکتا کر اپنا گھر بدلتا ہے!!۔
وہ کچھ ہی روز میں اکتا کر اپنا گھر بدلتا ہے!!۔
No comments:
Post a Comment