Friday, July 17, 2009

تمھارا خط۔۔۔۔

تمھارا خط ملا جاناں
وہ جس میں تم نے پوچھا ہے
میرے حالات کیسے ہیں، میرے دن رات کیسے ہیں
مہربانی تمھاری ہے کہ تم نے اس طرح سے
میرے حالات پوچھے ہیں
میرے دن رات پوچھے ہیں
تمھیں سب کچھ بتا دوں گا
مگر مجھے اتنا بتادو تم
کبھی ساگر کنارے پر کسی مچھلی کو دیکھا ہے؟
کہ جس کو لہریں پانی کی، کنارے تک تو لاتی ہیں
مگر پھر چھوڑ جاتی ہیں۔۔۔
میرے حالات ایسے ہیں
میرے دن رات ایسے ہیں۔۔۔۔۔

مجھے ہرگز نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پلٹ کر آنکھ نم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا
گئے لمحوں کا غم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا
محبت ہو تو بے حد ہو ، جو نفرت ہو تو بے پایاں
کوئی بھی کام کم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہارے ہوئے لوگوں سے تو روٹھا نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنو ناراض ہو ہم سے ؟؟؟
مگر ہم وہ ہیں
جن کو تو منانا بھی نہیں آتا!!!
کسی نے آج تک ہم سے محبت جو نہیں کی ہے
محبت کس طرح ہوتی ہے؟؟؟
ہمارے شہر کے اطراف میں تو سخت پہرا تھا
خزاؤں کا
اور اُس کی فصیلیں زرد بیلوں سے لدی ہیں
اور اُن میں نہ کوئی خوشبو
نہ کوئی ُُپھول تم جیسا
کہ مہک اُٹھتے ہمارے دل وجاں
جس کی قربت سے
ہم ایسے شہرِ پریشاں کی ویراں گلیوں میں
کسی سُوکھے ہوئے زرد پتے کی طرح تھے
کہ جب ظالم ہَوا
جب ہم پر اپنے قدم رکھتی تھی
تو اُس کے پاؤں کی نیچے ہمارا دَم نکل جاتا
مگر پت جھڑ کا وہ موسم
سُنا ہے ٹل چکا اب تو
مگر جو ہار ہونا تھی
سو وہ تو ہو چکی ہم کو
سنو ۔۔۔۔ !
ہارے ہوئےلوگوں سے تو رُوٹھا نہیں کرتے

Sunday, July 12, 2009

کج عشق نے در در رول دتا

کج شوق ہے یار فقیری دا
کج عشق نے در در رول دتا
کج سجناں حاجت نئیں چھڈی
کج زیہر رقیبان گھول دتا
کج ہجر فراق دا رنگ چڑھیا
کج درد ماہی انمول دتا
کج سڑ گئی قسمت ساڈی وی
کج پیارچ دھوکا ڈھول دتا

پرانی بستی

آؤ اداس راتوں میں
دل کی بستی میں آکے دیکھو
ہرایک رستہ ہراک دریچہ
تمھاری چاہت کا منتظر ہے
فلک سے تکتا ہے چاند تم کو
ستارے تم کو بلا رہے ہیں
تمھاری آمد کے منتظر ہیں
مجھے یقیں ہے تمھارےدل میں
گئے دنوں کے خیال ہیں کچھ
نئے سفر کے ملال ہیں کچھ
نئی رتوں کے سوال ہیں کچھ
اگر یہ سچ ہے تو میری مانو
پرانے رستوں پہ لوٹ آؤ
پرانی بستی میں کوئی اب تک
تمھاری آمد کا منتظر ہے


Tuesday, July 7, 2009

مزاحیہ شاعری۔۔۔ ڈاکٹر انعام الحق

پروفيسر ہي جب آتے ہوں ہفتہ وار کالج ميں
تو اونچا کيوں نہ ہو تعليم کا معيار کالج ميں

کچھ ايسے بھي پڑھا کو پنچھيوں کو ہم نے ديکھا ہے

کہ پر دفتر ميں پنجے شہر ميں منقار کالج ميں


اگر چہ دوسرے مشروب بھي مہنگے نہيں ملتے
مگر چلتا ہے اکثر شربت ديدار کالج میں

وہ ڈگري کي بجائے ميم لے کر لوٹ آيا ہے
ملا تھا داخلہ جس کو سمندر پار کالج ميں

مجھے ڈر ہے کہ ہم دونوں کہيں سمدھي نہ بن جائيں
تري گلنار کالج ميں ميرا گلزار کالج ميں

Thursday, July 2, 2009

میری بیاض سے۔۔۔۔۔

نظر میں ظلمت ،بدن میں ٹھنڈک جمال کتنا عجیب سا تھا
میں اس کی چاہت میں گھر سے نکلا تو حال کتنا عجیب سا تھا
نہ میں نے اسے خطوط لکھے نہ اس نے میری پناہ چاہی
دونوں کو بے خودی پہ اپنی ملال کتنا عجیب سا تھا
وہ اپنی راتوں میں چاند دیکھےمیں اپنی راتوں میں اس کو سوچوں
بدلتے لمحوں میں سوچ کا یہ وصال کتنا عجیب سا تھا
سفر اکیلے ہی کاٹ لو گے میں نے پوچھا تو روپڑا وہ
جواب کتنا عجیب سا تھا سوال کتنا عجیب سا تھا

سر آئینہ

اشفاق احمد نے اپنی ایک کتاب" ایک محبت سو ڈرامے" کا انتساب اس نامعلوم بابا جی کے نا م کیا ہے جس سے وہ ساہیوال جاتے ہوئے ملے تھے۔ اشفاق احمد اس واقعے کو یوں بیان کرتے ہیں کہ پاکستان کو بنے ہوئے اٹھائیس سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور چھوٹی عید پر وہ اپنی ہمشیرہ سے ملنے ساہیوال جارہے تھے کہ راستے میں ان کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا۔ وہیں سڑک کے کنارے ایک جولاہا اپنے کام میں مصروف تھا اور اس کا نہایت خوبصورت اور روشن آنکھوں والا ، سات آٹھ سالہ پوتا سوت کی انٹیاں سلجھانے میں اپنے دادا کی مدد کررہا تھا۔ اس سے باتیں کرنے کے دوران اشفاق احمد کو پتہ چلا کہ کہ سنہ سینتالیس سے پہلےوہ بابا جی فیروز پور میں رہتے تھے اور انھوں نے پاکستان بننے کےدوران اپنے خاندان کے اکیس افراد کو شہید ہوتے دیکھا تھا مزید یہ کہ انھیں پاکستان سے بہت پیار ہے اور انھوں نے قائد اعظم کی تصویر کو پینتیس روپے کا فریم جڑوا کر اپنی جھگی میں لگا رکھا ہے لیکن وہ اپنے پوتے کو سکول داخل نہیں کروانا چاہتا۔ اشفاق احمد نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بابا کہنے لگا 'صاحب جی میں پاکستان سے بہت پیار کرتا ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ پچھلے اٹھائیس سالوں میں کسی ان پڑھ نے پاکستان کو نقصان نہیں پہنچایا۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا پوتا بھی پڑھ لکھ کر میرے پیارے وطن کو برا بھلا کہنے لگے۔

کہنے کو یہ ایک عام سا واقعہ ہے لیکن غور کیا جائے تو ان بابا جی کی بات بہت حد تک ٹھیک بھی ہے۔

Wednesday, July 1, 2009

Ego......

کبھی سوچا ہے تم نے یہ
اگر ہم مل بھی جائیں تو
گزارا ہو نہیں سکتا
نہ تم خود کو کبھی
میرے سانچے میں ڈھالو گے
نہ میں اپنی روش کو چھوڑ پاوں گی
تم اپنے عشق پہ فاخر
میں اپنے حسن پہ نازاں
یوں ہم اپنی اپنی جگہ دونوں
انا کے خول میں لپٹے ہوئے
ریشم کے کیڑے ہیں
ناممکن کمپرومائز
نا سمجھوتے کی گنجائش
تو کیا بہتر نہیں ہے یہ
کہ ہم دونوں
بچھڑنے کی اذیت سے ہی نہ گزریں
نہ تم کو یاد آوں میں
نہ مجھ کو یاد آو تم
تمھین میں بھول جاوں اور
مجھے بھی بھول جاو تم