اشفاق احمد نے اپنی ایک کتاب" ایک محبت سو ڈرامے" کا انتساب اس نامعلوم بابا جی کے نا م کیا ہے جس سے وہ ساہیوال جاتے ہوئے ملے تھے۔ اشفاق احمد اس واقعے کو یوں بیان کرتے ہیں کہ پاکستان کو بنے ہوئے اٹھائیس سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور چھوٹی عید پر وہ اپنی ہمشیرہ سے ملنے ساہیوال جارہے تھے کہ راستے میں ان کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا۔ وہیں سڑک کے کنارے ایک جولاہا اپنے کام میں مصروف تھا اور اس کا نہایت خوبصورت اور روشن آنکھوں والا ، سات آٹھ سالہ پوتا سوت کی انٹیاں سلجھانے میں اپنے دادا کی مدد کررہا تھا۔ اس سے باتیں کرنے کے دوران اشفاق احمد کو پتہ چلا کہ کہ سنہ سینتالیس سے پہلےوہ بابا جی فیروز پور میں رہتے تھے اور انھوں نے پاکستان بننے کےدوران اپنے خاندان کے اکیس افراد کو شہید ہوتے دیکھا تھا مزید یہ کہ انھیں پاکستان سے بہت پیار ہے اور انھوں نے قائد اعظم کی تصویر کو پینتیس روپے کا فریم جڑوا کر اپنی جھگی میں لگا رکھا ہے لیکن وہ اپنے پوتے کو سکول داخل نہیں کروانا چاہتا۔ اشفاق احمد نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بابا کہنے لگا 'صاحب جی میں پاکستان سے بہت پیار کرتا ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ پچھلے اٹھائیس سالوں میں کسی ان پڑھ نے پاکستان کو نقصان نہیں پہنچایا۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا پوتا بھی پڑھ لکھ کر میرے پیارے وطن کو برا بھلا کہنے لگے۔
کہنے کو یہ ایک عام سا واقعہ ہے لیکن غور کیا جائے تو ان بابا جی کی بات بہت حد تک ٹھیک بھی ہے۔
No comments:
Post a Comment