Thursday, November 26, 2009

جانے کیوں لوگ میرے نام سے جل جاتے ہیں۔۔۔۔۔

گرمی ء حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم تو چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گم نام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی نہیں شیوہ ء اربابِ وفا
جن کو جلنا ہو بڑے آرام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے تیرا نام میرے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ میرے نام سے جل جاتےہیں

متفرق اشعار۔۔۔۔

رک ہی جاتی ہے نظرحد نظر تک جا کر
دل تو چاہتا ہے جہاں تم ہو وہاں تک دیکھوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت میں سر کو جھکا دینا کوئی مشکل نہیں فراز
روشن سورج بھی چاند کی خاطر ، ڈوب جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے میری چپ نے رلا دیا۔۔۔ جسے گفتگو میں کمال تھا۔۔۔۔۔

میرے ساتھ لگ کر وہ رو دیا فقط اتنا مجھ سےوہ کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں زندگی وہ صرف وہم و خیال تھا
کہاں جاو گے مجھے چھوڑ کر میں پوچھ پوچھ کر تھک گیا
وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا وہ تو خود سراپا سوال تھا
میری بات کیسے وہ مانتا، میرے درد کیسے وہ جانتا
وہ تو خود فنا کے سفر پہ تھا، اسے روکنا بھی محال تھا
وہ ملا تو صدیوں بعد بھی میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا ،جسے گفتگو میں کمال تھا

بنا کے تجھ کو سمندر میں پیاس ہوجاوں۔۔

میں یوں ملوں تجھے تیرا لباس ہوجاوں
بناکے تجھ کو سمندر میں پیاس ہوجاوں
جو دے دے مجھ کو اجازت تو میری جان مجھے
بناکے چاند محبت کے آسماں کا تجھے
کرن کرن میں تیرے آس پاس ہو جاوں
بناکے تجھ کو سمندر میں پیاس ہوجاوں
ہوئی قبول جو بن مانگے وہ دعا تو ہے
جو ٹوٹ کے بھی نہ ٹوٹے وہ سلسلہ تو ہے
رہے ادھوری نہ جو میں وہ آس ہوجاوں
بناکے تجھ کو سمندر میں پیاس ہو جاوں
میں یوں ملوں تجھے تیرا لباس ہو جاوں
بنا کے تجھ کو سمندر میں پیاس ہو جاوں

آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔

فاصلے ایسے بھی ہوں گے میں نے یہ سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کرسکتا تھا چھوسکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
آج اس نے درد بھی اپنے علحدہ کرلیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا

شام کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تونے دیکھا ہے کبھی اک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد
میں نے ایسے ہی گناہ تیری جدائی میں کیے
جیسے طوفاں میں کوئی چھوڑ دے گھر شام کے بعد
لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج
کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بعد
اتنے چپ چاپ کہ رستے بھی رہیں لاعلم
چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد

Friday, November 20, 2009

تجھے عشق ہو خدا کرے۔۔۔۔

تو نے کہا تھا عشق ڈھونگ ہے
تجھے عشق ہو خدا کرے
کوئی تجھ کو اس سے جدا کرے
تیرے ہونٹ ہنسنا بھول جائیں
تیری آنکھ پُر نم رہا کرے
اسے دیکھ کر تو رک پڑے
وہ نظر جھکا کر چلا کرے
تو اس کی باتیں کیا کرے
تو اس کی باتیں سنا کرے
تجھے ہجر کی وہ جھڑی لگے
تو ملن کی ہر پل دعا کرے
تیرے خواب بکھریں ٹوٹ کر
تو کرچی کرچی چنا کرے
تو نگر نگر پھرا کرے
تو گلی گلی صدا کرے
پھر میں کہوں کہ
عشق ڈھونگ ہے۔۔۔۔۔
تو نہیں نہیں کہا کرے


Monday, November 16, 2009

شہر کے دکاں دارو۔۔۔ تم نہ جان پاؤ گے۔۔۔

شہر کے دوکاں دارو!
کاربارِ الفت میں سود کیا ، زیاں کیا ہے؟؟
تم نہ جان پاؤگے
دل کے دام کتنے ہیں؟؟
خواب کتنے مہنگے ہیں
اور نقد جاں کیا ہے؟
تم نہ جان پاؤ گے
کوئی کیسے ملتا ہے
پھول کیسے کھلتا ہے
آنکھ کیسے جھکتی ہے
سانس کیسے رکتی ہے
کیسے راہیں کھلتی ہیں
کیسے بات چلتی ہے
شوق کی زباں کیا ہے
تم نہ جان پاؤ گے
وصل کا سکوں کیا ہے
ہجر کا جنوں کیا ہے
حسن کا فسوں کیا ہے
عشق کا دروں کیا ہے
تم مریض دانائی
مصلحت کے شیدائی
راہ گم یہاں کیا ہے
تم نہ جان پاؤ گے
زخم کیسے پھلتے ہیں
داغ کیسے جلتے ہیں
درد کیسے ہوتا ہے
کوئی کیسے روتا ہے
اشک کیا ہیں نالے کیا
دشت کیا ہیں چالیں کیا
آہ کیا فغاں کیا ہے
تم نہ جان پاؤ گے
جانتا ہوں میں تم کو
ذوقِ شاعری بھی ہے
شخصیت سجانے میں
اک ماہری بھی ہے
صرف حرف چنتے ہو
فقط لفظ سنتے ہو
ان کے درمیاں کیا ہے
تم نہ جان پاؤ گے

ہمیں تم بھول ہی جانا۔۔۔۔۔۔

اگر ہم دور ہو جائیں
کہیں دنیا میں کھوجائیں
بتاؤ کیا کرو گے تم؟؟
ہمیں ڈھونڈو گے یا
پھر بھول جاؤ گے؟
ہمیں آواز دو گے
یا کسی گزری کہانی میں
ہمارا نام لکھ دو گے؟؟
چلو ایسا ہی کر لینا
تم خود بھی بدل جانا
ہمیں تم بھول ہی جانا
مگر اتنی گذارش ہے
ہمارا ذکر جب آئے
تو تھوڑا مسکرا دینا
خوشی کا ہو کہ غم کا ہو
بس اک آنسو گرا دینا

ایک بھی سانس گناہ گار نہ ہونے دیتے

ہم سبھی خواب چراتے تیری آنکھوں سے مگر
تیری پلکوں کو خبردار نہ ہونے دیتے
ہم سبھی رنگ چراتے تیرے چہرے سے مگر
بے اثر ہم لب و رخسار نہ ہونے دیتے
تجھ سے ملتے تیری سانسوں سے ملا کر سانسیں
ایک بھی سانس گناہ گار نہ ہونے دیتے
ہم تجھے دکھ بھی سناتے تو لطیفوں کی طرح
ہم طبیعت تیری بے زار نہ ہونے دیتے
ہم گرہیں کھولتے سبھی تیری شناسائی کی
تجھ کو اس طرح پر اسرار نہ ہونے دیتے