کبھی ہم بھیگتے ہیں چاہتوں کی تیز بارش میں
کبھی برسوں نہیں ملتے اک ذرا سی رنجش میں
تمھی میں دیوتاوں کی کوئی خُو بُو نہ تھی ورنہ
کمی کوئی نہیں تھی میرے اندزِ پرستش میں
یہ پہلے سوچ لو پھر اور بھی تنہا نہ ہوجانا
اُسے چھُونے کی خواہش میں اُسے پانے کی کوشش میں
بہت سے زخم ہیں دل میں مگر اک زخم ایسا ہے
جو جل اٹھتا ہے راتوں میں جو لو دیتا ہے بارش میں
No comments:
Post a Comment