Friday, January 21, 2011

اے میرے اچھے فن کار۔۔۔۔

ریت سے بت نہ بنا
اے میرے اچھے فن کار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھ کو پتھر لادوں
میں ترے سامنے انبار لگا دوں
لیکن کون سے رنگ کا پتھر
تیرے کام آئے گا
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے یہ بے دل دنیا
یا پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے
اور کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی
جس پہ حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
اک وہ پتھر ہے
جسے کہتے ہیں تہذیب سفید
اس کے مر مر میں سیاہ خون جھلک جاتا ہے
ایک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر
ہاتھ تیشہ زر ہوتو وہ ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
جتنے افکار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
شعر بھی رقص بھی تصویروغنا بھی پتھر
میرا الہام تیرا ذہن رسا بھی پتھر
اس زمانے میں تو ہر فن کا نشاں پتھر ہے
ہاتھ پتھر ہیں تیرے ، میری زباں پتھر ہیں
ریت سے بت نہ بنا
اے میرے اچھے فنکار

1 comment: