حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
سمجھووہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جس میں کوئی پتھرنہیں گرتا
حیران ہے کئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کر کوئی کنکر نہیں گرتا
اس بندہ ء خوددار پہ نبیوں کاہے سایہ
جو بھوک میں بھی لقمہ تر پر نہیں گرتا
قائم ہے قتیل اب یہ میرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو میرا گھر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
سمجھووہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جس میں کوئی پتھرنہیں گرتا
حیران ہے کئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کر کوئی کنکر نہیں گرتا
اس بندہ ء خوددار پہ نبیوں کاہے سایہ
جو بھوک میں بھی لقمہ تر پر نہیں گرتا
قائم ہے قتیل اب یہ میرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو میرا گھر نہیں گرتا
No comments:
Post a Comment