Friday, May 29, 2009

قتیل شفائی

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
سمجھووہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جس میں کوئی پتھرنہیں گرتا
حیران ہے کئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کر کوئی کنکر نہیں گرتا
اس بندہ ء خوددار پہ نبیوں کا
ہے سایہ
جو بھوک میں بھی لقمہ تر پر نہیں گرتا
قائم ہے قتیل اب یہ میرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو میرا گھر نہیں گرتا

No comments:

Post a Comment