Friday, July 30, 2010

ہنستے ہنستے۔۔۔۔

نہ جانے کب ملے فرصت
اسی لمحے چلے آو
نہ جانےکب ملے فرصت
کہ جب تم بھی نہ مل پاو
کہ جب میں بھی نہ مل پاوں
!!!!
تمھیں شکوے سنانے ہیں
مجھے آنسو بہانے ہیں
تمھیں الزام دینا ہے
مجھے بے دام رہنا ہے
تمھارے نام کی ٹیبل
کسی کیفے کے گوشے میں
ڈنر کے واسطے بُک ہے
مجھے بھی شام کی چائے
کسی کے ساتھ پینا ہے
نئی خوشبو ہے پیرس کی
جو تم کو ساتھ لینا ہے
مجھے بھی ٹائی کا پیکٹ نئی پیکنگ میں لینا ہے
تو کیوں نہ شام سے پہلے کسی لمحے میں مل جائین
خزاں کی دھوپ پھیلی ہے
ہوا بھی تھوڑی گیلی ہے
اداسی کا فسون سا ہے
جنوں میں اک سکوں سا ہے
یہ موسم ہے بچھڑنے کا
اسی رُت میں بچھڑ جاو
ابھی آو
ابھی آو
بچھڑ جاو

Thursday, July 22, 2010

اس نے پوچھے تھے جدائی کے معانی مجھ سے۔۔۔۔

آکے لے جا میری آنکھ کا پانی مجھ سے
کیوں حسد کرتی ہے دریا کی روانی مجھ سے
گوشت ناخن سے الگ کر کے دکھایا
اُس نے پوچھے تھے جدائی کے معانی مجھ سے
تیری خوشبو کی لحد پہ میں بڑی دیر سے کھڑا تھا
روپڑی تھی مل کے رات کی رانی مجھ سے
ختم ہونے لگا جب خوں بھی اشکوں کی طرح
کرگئے خواب بھی میرے نقل مکانی مجھ سے

Thursday, July 1, 2010

لاحاصل

وہ لوگ ہی قدموں سے زمیں چھین رہے ہیں
جو لوگ میرے قد کے برابر نہیں آتے
اک تم کہ تمہارے لیے میں بھی میری جاں بھی
اک میں کہ مجھے تم بھی میسر نہیں آتے
جس شان سے لوٹے ہیں گنواکر دل و جاں ہم
اس طور سے تو ہارے ہوئے لشکر نہیں آتے
کوئی تو خبر لے میرے دشمن جان کی
کئی روز سے مرے صحن میں پتھر نہیں آتے
دل بھی کوئی آسیب کی نگری ہے محسن
جو اس سے نکل جاتے ہیں مڑ کر نہیں آتے