اتنا بھی اپنی ذات سے کوئی جدا نہ ہو
نکلے تری تلاش میں ،اپنا پتا نہ ہو
دیکھو کہ پھر ہواؤں کے تیور بدل گئے
ساحل کی ریت پر کوئی کچھ لکھ رہا نہ ہو
تنہائیاں کچھ ایسے بستی ہیں میرے ساتھ
عکس بھی شجر سے جیسے جدا نہ ہو
نہ کر تو میرے جسم کے زخموں کا یوں حساب
یہ دیکھ تیرے ہاتھ میں پتھر بچا نہ ہو
اپنوں سے بھی ملوں تو یہ خوف سا رہے
چہرے کے پیچھے کوئی چہرہ چھپا نہ ہو
No comments:
Post a Comment