Monday, March 16, 2009

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی۔۔۔۔ اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

ڈاکٹر سہیل احمدخان ہم سے بچھڑ گئے۔ کیا خبر تھی کہ بدلتا موسم ہم سے ہمارے بیش قیمت سرمائے کو چھین لے جائے گا اور ہم کچھ بھی نہ کرپائیں گے۔ میں نے ان سے بہت کم پڑھا ہے لیکن بہت سیکھا ہے۔ میری ان سے بہت زیادہ دفعہ ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود وہ نام اور چہرے دونوں سے مجھے پہچانتے تھے۔ دیکھنے میں خاصے سخت مزاج لیکن برتاؤ اتنا دھیما کہ خوامخواہ پھیل جانے کو جی چاہتا تھا۔ میں ایک بار ان کے آفس گئی اپنی اسائنمنٹ چیک کرانے تو وہ پائپ میں تمباکو بھر رہے تھے مجھے دیکھ کر ایک دم سے نیچے کرلیا ۔ میں اندر جانے سے جھجھک گئی تو بولے آجاؤ سینورا۔ میں نے پوچھا سر سینورا کا مطلب؟ تو انھوں نے مجھے بتایا کہ اطالوی زبان میں لڑکی کو عزت سے بلانے کے لیے سینورا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ میں نے اسائنمنٹ ان کی میز پر رکھی ۔ وہ پائپ میں تمباکو بھرنا چاہ رہے تھے لیکن شاید میری وجہ سے رک گئے تھے۔ میں نے کہا سر آپ پی لیں ۔ مجھے تمباکو سے کوئی الرجی نہیں ہے ۔ میرے کہنے پر ایک دم ہنس پڑے اور بے تکلفی سے پائپ بھرنے لگے۔ مجھے اسائنمنٹ پر بہت سے مشورے دیے اور کہا کہ اردو ادب کے ساتھ ساتھ باقی مطالعہ بھی جاری رکھو۔ اس کے بعد ان سے اپنی یونیورسٹی میں تو ماقات نہیں ہوئی کیوں کہ وہ گورنمنٹ کالج میں بطور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ عہدہ سنبھال چکے تھے۔ پھر پیپر شروع ہوگئے اور میں زندگی میں ایسی مصروف ہوئی کہ یاد ہی نہ رہا کہ کہیں کوئی ڈاکٹر سہیل احمد بھی ہیں۔
امتحانات کے بعد میں ایم اے کا تحقیقی مقالہ لکھ رہی تھی کہ مجھے گورنمنٹ کالج لائبریری سے کچھ مقالے اور کتابیں درکار تھیں۔ میرے ذہن سے نکل چکا تھا کہ ڈاکٹر صاحب وہاں ہوتے ہیں۔ میں لائبریری گئی تو مجھے کہا گیا کہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سے اجازت لے لیں آپ کو لائبریری میں دستیاب مواد استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔ میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے کمرے میں گئی تو ڈاکٹر صاحب پھر پائپ پی رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر ہنس پڑے اور کہنے لگے آجاؤ سینورا۔ میں نے پوچھا سر آپ کو یاد تھا؟ تو کہنے لگے نہیں تمھارا نام بھول گیا ہوں لیکن شکل یاد تھی۔ میں نے دوبارہ سے نام بتایا اور اپنا مقصد بھی۔ انھون نے مجھے ایک ماہ کے بجائے چار مہینے لائبریری استعمال کرنے کی اجازت دی اور اپنے کارڈ پر کتابیں جاری کرانے کی بھی۔ تحقیقی مقالے میں ان کا شکریہ ادا کرکے مجھے لگا کہ میرا فرض ادا ہوگیا ۔ میں پڑھائی کے بعد کام میں مصروف ہوگئی اور دوبارہ ان سے ملاقات نہیں کرپائی۔ کچھ دن قبل مجھے ان کی وفات کی خبر ملی تو بے اختیار روپڑی۔ ان کے الفاظ کانوں میں گونجتے رہے۔۔ آؤ سینورا۔ اللہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ میں ان سے یہ دو ملاقاتیں کبھی نہیں بھول پاؤں گی کیوں کہ اچھے لوگوں کو یاد کرنے کے کچھ بہانے ، کچھ حوالے تو ملتے ہی رہتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment