Thursday, December 23, 2010

Recieved from Huma...

اسے کہنا بچھڑنے سے محبت تو نہیں مرتی
بچھڑ جانا محبت کی صداقت کی علامت ہے
محبت ایک فطرت ہے
ہاں فطرت کب بدلتی ہے
سو جب ہم دور ہوجائیں
نئے رستوں میں کھو جائیں
تو یہ مت سوچ لینا تم
محبت مرگئی ہوگی
نہیں! ایسا نہیں ہوگا
مرے بارے میں سنکر جب تمہاری آنکھ بھر آئے
چھلک کر ایک آنسو پلک پر جو اتر آئے

تو بس اتنا سمجھ لینا
جو میرے نام سے اتنی ترے دل کو عقیدت ہے
ترے دل میں بچھڑ کر بھی ابھی میری محبت ہے

محبت!!! جو اجڑ کر بھی سدا آباد رہتی ہے
محبت ہو کسی سے تو ہمیشہ یاد رہتی ہے
محبت وقت کے بےرحم طوفاں سے نہیں ڈرتی
اُسے کہنا بچھڑنے سے محبت تو نہیں مرتی

بڑی الجھنوں میں ہوں۔۔۔ فراز احمد فراز

تیرے قریب آکے بڑی الجھنوں میں ہوں
میں دوستوں میں ہوں کہ ترے دشمنوں میں ہوں
مجھ سے گریزپا ہے تو ہر راستہ بدل
میں جو سنگ راہ ہوں تو سبھی راستوں میں ہوں

Monday, December 20, 2010

ہمیں کیا برا تھا مرنا۔۔اگر ایک بار ہوتا۔۔۔۔

مرے دل مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یار نامہ بر کا
ہراک اجنبی سے پوچھیں
جوپتا تھا اپنے گھر کا
سرکوئے ناشنائیاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمھیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شب غم بری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جوکوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا
اگرایک بار ہوتا

کھلتا کسی پہ کیوں۔۔۔۔۔

کُھلتا کِسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ
شعروں کےانتخاب نے رُسوا کیا مجھے

Saturday, December 18, 2010

از شبنم شکیل۔۔۔۔

پوچھتے کیا ہو کیوں کر ہم پہنچے ہیں ایسے حالوں میں
ہم جیسے بھی پڑ جاتے ہیں دنیا کے جنجالوں میں

جس قصے کو ختم کیا جاسکتا تھا کچھ لمحوں میں
سوچ بچار ہی کرپائے ہیں اس پر اتنے سالوں میں

خوابوں سے محروم رہا کرتے ہیں دنیا جیت کے بھی
ایک کمی اکثر یہ رہ جاتی ہے جاگنے والوں میں

روزازل سے طے یہ ہواتھا کٹ جائے بس ایسے ہی
میری عمر جواب دہی میں، تیری عمر سوالوں میں

اپناآپ مٹاڈالا ہے اس بیکار سی خواہش میں
میرا ذکر کتابوں میں ہو، میراذکر رسالوں میں

چہک پرندوں کی ہی لے آتی ہے زیردام انہیں
ایک حوالہ خوش گفتاری بھی تھا میرے حوالوں میں

Recieved from MOMO...:)

ہم ایک کہہ کے سنتے ہیں دوچارگالیاں
اک چھیڑ ہوگئی ہے تیرے پاسباں کے ساتھ

Friday, December 17, 2010

از شبنم شکیل۔۔۔۔۔۔ ڈائری 2010

زمانہ ساز ہوتی جا رہی ہوں
مجھےروکو،سنبھلتی جارہی ہوں
نہتا کردیا ہے اس نے مجھ کو
ہراک سےصلح کرتی جارہی ہوں

From my Diary.

پہاڑوں سے اتر کر وادیوں میں رنگ بھرنا ہے
مجھے رستے کے سارے پتھروں کو ریت کرنا ہے

Wednesday, December 15, 2010

ناصرکاظمی۔۔۔۔۔

ہزاررستےہیں اہل دل کے،بس ایک منزل ہےبوالہوس کی
یہی فرق ہے اس میں ، ہم میں، گزرگئے ہم، ٹھہر گیا وہ

سچائی مرگئی ہے۔۔۔۔۔۔

اندھی بصارتیں ہیں
بہری سماعتیں ہیں
گونگے ہیں لفظ سارے
ہر نقش عارضی ہے
ہرخواب رائیگاں ہے
دھندلے ہیں عکس سارے
شبنم گلاب خوشبو
سب شاعروں کی باتیں
سب جھوٹ سب فسانے
دھوکہ بنی محبت
نہ معتبر وفائیں
ایسی ہوا چلی ہے
سچائی مرگئی ہے

کون کہاں تک چل سکتا ہے؟؟؟؟ شاعر ،زاہد منیر عامر

اپنے گریباں، درداپنے ہیں
اپنے اپنے سپنے ہیں
کچھ لمحوں میں پیاراترکر
اک زنجیر بنا دیتا ہے
من اور تو کی صدیوں کو
کچھ لمحوں میں الجھادیتا ہے
لمحے صدیاں بن نہیں پاتے
رستے الجھےرہ جاتے ہیں
الجھے سلجھے رستوں پر
وعدوں کے پھول کھلا نہیں کرتے
پھول کہاں تک کھل سکتے ہیں
پھول کہاں تک چل سکتے ہیں
رستے تنہا رہ جاتے ہیں
کون کہاں تک چل سکتا ہے

Recieved from..Rabi....

وہ ایک شخص مجھے ساری عمر ترسے گا
نصیب اُس کے کہ اُس نے مجھے گنوانا تھا

بلاعنوان۔۔۔

ایک نقطے نے محرم سے مجرم بنادیا
ہم دعا لکھتے رہے ، وہ دغا پڑھتے رہے

Tuesday, December 7, 2010

ناصرکاظمی۔۔۔۔بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں۔۔۔۔

وہ دلنوازہےلیکن نظرشناس نہیں
مراعلاج مرےچارہ گر کے پاس نہیں

تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
مرےلیےکوئی شایانِ التماس نہیں

ترےجلو میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے
مرےمزاج کو آسودگی بھی راس نہیں

کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے
اب ان دنوں کا تصوربھی مرےپاس نہیں

مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں

Saturday, December 4, 2010

بلاعنوان۔۔۔۔

میرے کمرے میں پڑے ہیں
میری قسمت کے نجوم
ہر طرف بکھرے رسالے
اور کتابوں کا ہجوم
اب جگہ کافی نہیں ہے
میرے رہنے کے لیے
میں نے کتنا پڑھ لیا ہے؟
کچھ نہ کہنے کے لیے

Recieved from Tehseen..:)

اسے کہنا دسمبر آن پہنچا ہے
ہوائیں سرد ہیں وادیاں بھی دھند میں گم ہیں
پہاڑوں نے برف کی شال پھر سے اوڑھ رکھی ہے
سبھی رستے تمہاری یاد میں پُرنم سے لگتے ہیں
جنھیں شرفِ مسافت تھا
وہ سارے کارڈز
وہ پرفیوم
وہ چھوٹی سی ڈائری
وہ ٹیرس
وہ چائے
جو ہم نے ساتھ میں پی تھی
تمہاری یاد لاتے ہیں
تمہیں واپس بلاتے ہیں
اسے کہنا کہ
دیکھو ! یوں ستاؤ نا
دسمبر آن پہنچا ہے
سنو ! تم لوٹ آؤ نا

مجسمہ ساز۔۔۔۔۔۔ ایک کہانی، بڑی پرانی۔۔از منیرالدین احمد

چین کے بادشاہ اکیلے نہ مرتے تھے
ان کے ساتھ مرنا ہوتا تھا
حرم کی رانیوں کو
محل کی لونڈیوں کو
گھربار کی باندیوں کو
شاہی پہرہ داروں کو
فوج کی ایک پوری پلٹن کو
گھوڑوں اورخچروں کو
کتوں اور بلیوں کو
یہ رسم جاری رہی
اس روز تک
جب ایک مجسمہ ساز کو
ایک انوکھی تجویز سوجھی
زندوں کی جگہ
مجسموں کو بادشاہ کی
قبرمیں دفن کرنے کی
بادشاہ کی زندگی میں
سارے مجسمے تیار کیے گئے
ان لوگوں کے
جنھیں وہ اگلے جہاں میں
اپنی معیت میں دیکھنا چاہتا تھا
ایک وسیع و عریض قبر میں
ان کو ایستادہ کردیاگیا
بادشاہ کی موت کے انتظارمیں
اور جب بادشاہ مرا تو
خوشیاں منائی گئیں
ماتم کی بجائے
کیوںکہ رانیوں اور درباریوں
محل کے باسیوں اور
ہزاروں لشکریوں کی جانیں
جو بچ گئی تھیں
نہ بچ سکی تو
صرف مجسمہ ساز کی جان
اس کو بادشاہ کے دائیں ہاتھ پر
زنجیروں سے جکڑ دیا گیا
قبر پر منوں مٹی ڈالنے سے پہلے
اسے اگلے جہاں میں
مجسموں میں روح پھونکنی ہوگی
اور شاید بادشاہ کو
مزید لشکریوں کی ضرورت پڑ جائے

وصیت۔۔۔۔ داغ دہلوی

دن گزارے عمر کے انسان ہنستے بولتے
جان بھی نکلے تو میری جان ہنستے بولتے
آسماں برسوں رلاتا ہے لگا دیتا ہے چپ
دیکھ لیتا ہے اگر اک آن ہنستے بولتے