Wednesday, October 23, 2013

haaaah:(

ہو اب تو سینہ صاف کہیں ہم سے جنگجو
اک عمر ہوگئی تجھے ظالم لڑے ہوئے

Thursday, October 3, 2013

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے 
تو وہ حملہ نہیں کرتا
سنا ہےجب کسی ندی کے پانی میں بیے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسی مان لیتی ہیں

ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے گھر کو بھول کر
کوے کے انڈوں کو پروں میں تھام لیتی ہے

سنا ہے گھونسلے سےجب کوئی بچہ گرے تو
سارا جنگل جاگ جاتا ہے

ندی میں باڑھ آجائے
کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختےپر
گلہری ، سانپ، چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

خداوندا!جلیل و معتبر، دانا و بینا، منصف و اکبر!!!
ہمارے شہر میں اب
جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر

:(

!!!!!زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے

Monday, May 27, 2013

آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں۔۔۔۔۔۔ابن انشا

ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لیے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلہ لگا ہے اُسی شان سے
آج چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں
نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں
پر وہ چھوٹا سا الہڑ سا لڑکا کہاں

Wednesday, February 13, 2013

بچہ تو کبھی اپنے کھلونے نہیں دیتا۔۔۔۔


ہنسنے نہیں دیتا کبھی رونے نہیں دیتا

یہ دل تو کوئی کام بھی ہونے نہیں دیتا

تم مانگ رہے ہو میرے دل سے میری خواہش

بچہ تو کبھی اپنے کھلونے نہیں دیتا

میں خود ہی اٹھاتا ہوں شب و روز کی ذلت

یہ بوجھ کسی اور کو ڈھونے نہیں دیتا

کہتا تو بہت ہے کہ خلا ہے میرے اندر

لیکن وہ کہیں ہم کو سمونے نہیں دیتا

وہ کون ہے اس سے تو میں واقف بھی نہیں ہوں

جو مجھ کو کسی اور کا ہونے نہیں دیتا

میں تاں پتھر گلدے ویکھے۔۔۔۔۔

چڑھدے سورج ڈھلدے ویکھے

بجھدے دیوے بلدے ویکھے



ہیرے دا کوئی مُل نہ تارے

کھوٹے سکے چلدے ویکھے



جنھاں دا نہ جگ تے کوئی

او وی پُتر پَلدے ویکھے



اوہدی رحمت دے نال بندے

پانی اُتے چلدے ویکھے



لوکی کیہندے دال نہ گلدی

میں تاں پتھر گلدے ویکھے

Saturday, February 9, 2013

kya Khuda bhi us ka tha??



منزلیں بھی اس کی تھیں


راستا بھی اس کا تھا


ایک ہم اکیلے تھے


قافلہ بھی اس کا تھا


ساتھ ساتھ چلنے کی سوچ بھی اسی کی تھی


پھر راستا بدلنے کا فیصلہ بھی اس کا تھا


آج کیوں اکیلے ہو دل سوال کرتا ہے


لوگ تو اسی کے تھے


کیا خدا بھی اس کا تھا؟

An Advice:)

میرے جان و دل میرے ہم سفر کوئی بات کر کوئی بات

تیرے لب ہلیں تو کٹے سفر ، کوئی بات کر کوئی بات کر

کوئی بوجھ ہے تو اتار دے ، کوئی خوف ہے تو نکال دے

میرا ہاتھ ہے تیرے ہاتھ پر، کوئی بات کر کوئی بات کر

نہیں یاد کتنے برس گئے، تیری گفتگو کو ترس گئے

میری کھڑکیاں میرے بام و در، کوئی بات کر کوئی بات کر

تجھے چپ ہے کیسی لگی ہوئی ، ابھی عمر تو ہے پڑی ہوئی

ابھی مسکرا ابھی غم نہ کر، کوئی بات کر کوئی بات کر

Monday, February 4, 2013

صبح بخیر۔۔۔۔امجد اسلام امجد

کرو جو بات کرنی ہے
اگر اس آس پر بیٹھے کہ دنیا
بس تمھیں سننے کی خاطر
گوش بر آواز ہو کر بیٹھ جائے گی
تو ایسا ہو نہیں سکتا
زمانہ ایک لوگوں سے بھرا ہوا فٹ پاتھ ہے جس پر
کسی کو ایک لمحے کے لیے رکنا نہیں ملتا
بٹھاؤ لاکھ تم پہرے
تماشا گاہِ الفت سے گزرتی جائے گی خلقت
بنا دیکھے بنا ٹھہرے
جسے تم وقت کہتے ہو
دھندلکا سا کوئی جیسے زمیں سے آسماں تک ہے
یہ کوئی خواب ہے جیسے
نہیں معلوم کہ اس خواب کی مہلت کہاں تک ہے
کرو جو بات کرنی ہے