Saturday, January 24, 2009
شاعری از نوشی گیلانی
مجھکو تو یہ کہنے کی بھی مہلت نہیں ملی
نیندوں کے دیس جاتے کوئی خواب دیکھتے
لیکن دیا جلانے سے مہلت نہیں ملی
تجھ کو تو خیر شہر کے لوگوں کا خوف تھا
اور مجھکو اپنے گھر سے اجازت نہیں ملی
پھر اختلاف رائے کی صورت نکل پڑی
اپنی یہاں کسی سے بھی عادت نہیں ملی
بےزار یوں ہوئے کہ ترے عہد میں ہمیں
سب کچھ ملا سکوں کی دولت نہیں ملی
Thursday, January 22, 2009
میرے دل کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ۔۔۔۔۔۔۔ بڑوں کی دیکھ کر دنیا بڑا ہونے سے ڈرتا ہے
ساحر لدھیانوی
لو اپنا جہاں دنیا والوہم اس دنیا کو چھوڑچلے
جو رشتےناطےجوڑے تھے وہ رشتے ناطے توڑ چلے
کچھ سکھ کے سپنے دیکھ چلے کچھ دکھ کےسپنے جھیل چلے
تقدیر کی اندھی گردش نے جو کھیل کھلائے کھیل چلے
ہر چیز تمھاری لوٹادی، ہم لے کے نہیں کچھ ساتھ چلے
پھر دوش نہ دینا اے لوگو ہم دیکھ لو خالی ہاتھ چلے
یہ راہ اکیلی کٹتی ہے یاں ساتھ نہیں کوئی یار چلے
اس پار نہ جانے کیا پائیں اس پار تو سب کچھ ہار چلے
Wednesday, January 21, 2009
ادبی محفل۔۔۔ ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
Monday, January 19, 2009
ساحر لدھیانوی کی" ہم عصر"۔
تو بھی کچھ پریشاں ہے
تو بھی سوچتی ہوگی
تیرے کام کی شہرت تیرے کام کیا آئی
میں بھی کچھ پشیماں ہوں
میں بھی غور کرتا ہوں
میرے کام کی عظمت میرے کام کیا آئی
تیرے خواب بھی سونے
میرے خواب بھی سونے
تیری میری شہرت سے
تیرے میرے غم دونے
توبھی اک سلگتا بن
میں بھی اک سلگتا بن
تیری قبر تیرا فن
میری قبر میرا فن
اب تجھے میں کیا دوں گا
اب مجھے تو کیا دےگی
تیری میری غفلت کوزندگی سزا دے گی
تو بھی کچھ پریشاں ہے
تو بھی سوچتی ہوگی
تیرے کام کی شہرت تیرے کام کیا آئی
میں بھی کچھ پشیماں ہوں
میں بھی غور کرتا ہوں
میرے کام کی عظمت میرے کام کیا آئی
Saturday, January 17, 2009
I Miss You Daadi maan
چٹھی نہ کوئی سندیس جانے وہ کون سا دیس
جہاں تم چلے گئے
اس دل پہ لگا کر ٹھیس جانے وہ کون سا دیس
جہاں تم چلے گئے
اک آہ بھری ہوگی ،ہم نے نہ سنی ہوگی
جاتے جاتے تم نے آواز تو دی ہوگی
ہر وقت یہی ہے غم، اس وقت کہاں تھے ہم
کہاں تم چلے گئے
چٹھی نہ کوئی سندیس جانے وہ کون سا دیس
جہاں تم چلے گئے
ہر چیز پہ اشکوں سے، لکھا ہے تمھارا نام
یہ رستے گھر گلیاں ،تمھیں کر نہ سکے سلام
ہائے دل میں رہ گئی بات، جلدی سے چھڑا کر ہاتھ
کہاں تم چلے گئے
چٹھی نہ کوئی سندیس جانے وہ کون سا دیس
جہاں تم چلے گئے
اب یادوں کے کانٹے اس دل میں چبھتے ہیں
نہ درد ٹھہرتا ہے نہ آنسو رکتے ہیں
تمھیں ڈھونڈ رہا ہے پیار ہم کیسے کریں اقرار
کہ ہاں تم چلے گئے
چٹھی نہ کوئی سندیس جانے وہ کون سا دیس
جہاں تم چلے گئے
اس دل پہ لگاکر ٹھیس جانے وہ کون سا دیس
جہاں تم چلے گئے
Saturday, January 10, 2009
تھا بچپن میں جیسے یہی کام اپنا۔۔۔ جو دیوار پائی لکھا نام اپنا۔۔۔۔
جب ہم چھوٹے بچے تھے
سچی کتنے اچھے تھے
کتنی پھینٹی کھاتے تھے
پھر بھی ہنستے رہتے تھے
اداسی تھی نہ ملال تھا پھر بھی
کتنے آنسو بہاتے تھے
بادل کے گرجنے پہ ہم
کتنے ڈر سے جاتے تھے
امی کے آنچل میں چھپنے
بھاگ بھاگ کر جاتے تھے
کلاس میں ٹیچر سے چھپ چھپ کر
چورن چٹنی کھاتے تھے
سکول سے چھٹی ہونے پر
کتنا شور مچاتے تھے
گھر تک آتے آتے ہم
ہر گھر کی گھنٹی بجاتے تھے
بارش کے موسم میں مل کر
کتنے مزے اڑاتے تھے
کاغذ کی کشتیاں بنابنا کر
پانی میں چلاتے تھے
امی سے جھاڑیں کھاتے تھے
جب بھیگ بھاگ کر جاتے تھے
چھٹیوں میں ہم سب مل کر
دادی سے ملنے جاتے تھے
جون کی گرم دوپہروں میں
ننگے پاؤں پھرتے تھے
گرمی دانے نکلتے تھے
مچھر بھی خوب ستاتے تھے
سیرپ پی لیتےتھے لیکن
ٹیکہ نہ لگواتے تھے
جو پیسے دادی دیتی تھیں
ان سے جھنڈیاں لاتے تھے
چودہ اگست مناتے تھے
ستمبر اچھا نہ تھاکیوں کہ
سکول جو کھل جاتے تھے
چھٹیاں ختم جب ہوجاتیں
افسردہ ہوجاتے تھے
نئے جوتے نئے کپڑے دیکھ کر
پھر سے خوش ہوجاتے تھے
وہ بارش بھی یاد آئی۔۔۔ وہ کاغذ کی ناؤ بھی۔۔۔ وہ سردی کا موسم بھی۔۔۔ وہ جلتا الاؤ بھی۔۔۔۔
خواب
صبح صبح اک خواب کی دستک پر دروازہ کھولا
دیکھا، سرحد کے اس پار سے کچھ مہمان آئے ہیں
آنکھوں سے مانوس تھے سارے
چہرے سارے سنے سنائے
پاؤں دھوئے، ہاتھ دھلائے
آنگن میں آسن لگوائے
اور تنور پہ مکی کے کچھ
موٹے موٹے روٹ پکائے
پوٹلی میں مہمان
مرے پچھلے سالوں کی فصلوں کا گڑ لائے تھے
آنکھ کھلی تو گھر میں کوئی نہیں تھا
ہاتھ لگا کر دیکھا تو تنور ابھی تک بجھا نہیں تھا
اور ہونٹوں پر میٹھے گڑ کا ذائقہ ابھی تک چپک رہا تھا
خواب تھا شاید، خواب ہی ہو گا
سرحد پر کل رات سنا ہے چلی تھی گولی
سرحد پر کل رات سنا ہے کچھ خوابوں کا خون ہوا ہے
امی! ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کبھی ہم بھی خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی خوشبو کی مانند
سانس ساکن تھی
بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے لیکن
ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت جب کرن کے ساتھ آنگن میں اُترتی تھی
تو ہم کہتے تھے
امّی۔۔۔۔ تتلیوں کے پر بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے
جگنوؤں کے
دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاں
آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بُلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
Wednesday, January 7, 2009
اردو زبان و ادب
بدرالدین منیر کی خوبصورت غزل
وہ اک دفعہ تو مری محبت کو آزماتا ،مجھے بتاتا!!!!!!!!
مجھے خبر ہے کہ چپکے چپکے اندھیرے اس کو نگل رہے ہیں
میں اس کی راہوں میں اپنے دل کا دیا جلاتا ،مجھے بتاتا!!!!!!!!
زبان خلقت سے جانے کیا کیا وہ مجھکو باور کرارہا ہے
کسی بہانے انا کی دیوار کو گراتا ، مجھے بتاتا
زمانے والوں کو کیا پڑی ہے سنیں جو حال دل شکستہ
مگر میری یہ آرزو تھی مجھے بلاتا مجھے بتاتا
غضب کیا ہے منیر اس نے جو شہر چھوڑا ہے خامشی سے
میں اس کی خاطر یہ دنیا ساری ہی چھوڑ جاتا مجھے بتاتا
Tuesday, January 6, 2009
مسلمانوں کی خواہش ہے کہ وہ سب ایک ہوجائیں ،مگر ان کو اکٹھا مولوی ہونے نہیں دیتے
رمضان کا پہلا عشرہ چل رہا تھا۔۔ کوئی پانچواں روزہ ہو گا شاید۔۔۔ جمعے کا دن تھا۔۔ میں وضو کرکے نماز ظہر ادا کرنے کے لیے جائے نماز پر کھڑی تھی کہ مسجد کے بلند گو (لاؤڈ سپیکر)سے آواز گونجی۔۔۔۔
ماہ رمضاں تو ہم سے جدا۔۔۔ الوداع الوداع الوداع۔۔۔ نیت باندھنی تھی لیکن یہ آوازسن کر رک گئی۔۔۔ ہیں؟؟؟؟ بھئی یہ کیا؟ مولوی صاحب کو کیا ہوا؟؟ ابھی تو پہلا عشرہ ہے۔۔۔۔
کوئی تین منٹ تک رمضان المبارک کو الوداع کرتے رہے لیکن ناکام ہو گئے۔۔۔ شاید نیند میں تھے۔۔۔ یا شاید کسی نے یاد دلا دیا ہوگا۔۔۔
ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔۔قریباً آدھا گھنٹہ گزرگیا۔۔۔ ایک دم سے آس پاس والی مسجدوں میں سے مولوی صاحبان باہر نکل آئے۔۔۔ کون ہے یہ نامراد۔۔۔ کس نے یہ حرکت کی۔۔۔
گلی سے مولوی صاحبان کی پرجوش آوازیں گونجنے لگیں۔۔
مولوی صاحب مجھے مشرق کی طرف سے آواز آئی تھی۔۔۔ کسی نے گواہی دی۔۔۔
ارے ناہنجار۔۔ میں اسی مسجد میں ہوتا ہوں۔۔۔ میں تو سو رہا۔۔۔ میرا مطلب ہے نماز ادا کررہا تھا۔۔۔ تجھے کہاں سے آواز آگئی؟ مولوی صاحب بدک گئے۔۔۔۔
محلے کے بزرگ نکل آئے۔۔۔ کسی نے کہا مولوی شبیر تھے۔۔ کسی نے مولوی ضیا الدین کا نام لیا۔۔۔ کوئی کہنے لگا میں نے خود سنا ہے مولوی وزیر احمد نے ایسا کیا۔۔۔یونہی بڑھتے بڑھتےبات اتنی بڑھ گئی کہ نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔۔۔ کچھ جوشیلے لڑنے مرنے پر تیار ہوگئے۔۔۔۔اسلام کے نام پر دھبہ ہیں ایسے لوگ۔۔۔ جنھیں اتنے مبارک مہینے کا احترام نہیں کرنا آتا۔۔۔ یہ مولانا مبارک رمز تھے۔۔۔ جو مجمعے کو مزید مشتعل کررہے تھے۔۔۔ میرے بھائیو! ایسے لوگوں اسلام کے دائرے سے نکل جانا چاہیے۔۔۔ ارے جہاد ہے یہ نکالو اس خبیث کو باہر۔۔۔۔ کوئی ہوتا تو باہر نکلتا۔۔۔ ارد گرد کے تمام مسجدوں کے مولوی صاحبان تو پہلے سے باہر کھڑے تھے۔۔۔ اب حال یہ تھا کہ تمام مولوی صاحبان ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے تھے اور لوگوں کو آپس میں لڑوارہے تھے۔۔۔ یک دم ایک اماں جی باہر نکلیں اور کہنے لگیں۔۔۔
ارے شرم کرو۔۔۔ لڑائی میں عصر کی نماز کا وقت نکل رہا ہے۔۔۔ جاؤ جاکر اذان دو۔۔۔ تو مولانا صاحب شرمندہ ہوکر کہنے لگے۔۔۔ بھائیو ابھی بات کو یہیں روک دو۔۔۔ صبح یہ معاملہ فتوے تک جائے گا۔۔۔ اللہ کرم فرمائے۔۔۔ اتنا کہنا تھا کہ مجمع چھٹ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن میں ٹیرس پر کھڑی تھی کہ مولانا صاحب کے پوتے گلی میں کھیل رہے تھے۔۔۔ کل نا دادا ابو نے وہ ماہ رمضان والا سکھایا تھا نا؟ وہ مجھے بھی آتا ہے۔۔۔ننھے سے بچے ایک دم سے ساری بات کھول دی۔۔۔۔
پیارے ابو۔۔۔۔۔
ابدِ سرا میں اپنے ازلی گھر کو جاؤں
میں مرجاؤں!۔
میری قبر پر تم
تلسی کا اک پیڑ لگانا
دنیا میں خوشبو پھیلانا
اپنے شہر کے کوچوں ، گلیوں ، میدانوں میں
رنگ لٹانا
شہر کی روح کو
صحت والی خوشیوں کا سرمایہ دینا
شہر کے جسم کو ایک سہانی کایا دینا
میری یاد میں!۔
دھوپ میں جلتے انسانوں کو سایہ دینا
نصیر احمد ناصر کی ایک خوبصورت نظم۔۔۔۔
سیہ بادل امڈتے ہیں
افق کی نیلگوں معدوم ہوتی بے کرانی سے
سنہری دھوپ کی تختی پہ نیلی بارشوں کے
گیت لکھتے ہیں
پرندے یاد رکھتے ہیں زمینوں کو نشانی سے
سمندر ساحلوں پر ختم ہوتے ہیں
جزیرے ڈوب جاتے ہیں کہیں آنکھوں کے پانی سے
سنو بچو!۔
کہانی ٹوٹ جاتی ہے ذرا سی بے دھیانی سے
Sunday, January 4, 2009
ٹوٹی ہوئی منڈیر پر ننھا سا اک دیا، موسم سے کہ رہا ہے آندھی چلا کے دیکھ
چہ معنی دارد؟ ایسی سوچ اپنائی جائے تو انسان اور انسانیت تو پس پشت چلے جاتے ہیں ناں؟۔ انسانیت کے بارے میں سوچیے۔۔۔۔۔ سچ بولنا ہو تو اپنے بارے میں بولیے۔۔۔ کسی کےبارے میں سچ لکھنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔۔۔۔ اس کے برعکس اپنے بارے میں سچ بولنا؟؟؟ خاصا مشکل ہے۔۔۔ کر کے دیکھیے ۔۔۔ آپ بھی مان جائیں گے۔۔۔
میری سمجھ سے باہر ہو تم۔۔۔۔۔۔۔
اس نے کہا ہار جاؤ گی خود سے لڑتے لڑتے۔۔۔۔۔میں بولی عمر گزری ہے ایسا کرتے کرتے
اس نے کہا کچھ الگ سے کرنا چاہتی ہو تم ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بولی راہوں میں ہونا چاہتی نہیں میں گم
Saturday, January 3, 2009
میری کاوش سے پائیں یہ رنگ قبول، پھول کچھ میں نے چنے ہیں سب کے دامن کے لیے
ہماری رشتے کی ایک پھوپھی جان ہیں انھیں انگریزی زبان کا خبط ہوا۔۔۔ پوتے کو انگریزی سکول مین داخل کرادیا۔۔۔ اب ہر کسی سے کہنے لگیں کہ ہمارا بچہ تو اردو نہیں بولتا۔۔۔ ارے بھئی اردونہیں آتی اسے۔۔۔۔ جب ہمارا ملنا ہوا تو معلوم ہوا کہ ان کے بچے کو تو انگریزی بھی نہیں آتی۔۔۔۔ سکول میں انگریزی ، گھر میں اردو اور بلا جھجھک پنجابی بھی بولی جاتی تھی۔۔۔۔ تو بچے کی زبان کچھ ایسی تھی ۔۔۔۔
ماما اب میں بکیں ریڈ کرنے لگا ہوں۔ ہینڈ واش کرنے ہیں۔ واٹر ڈرنک کرلیںوغیرہ وغیرہ۔
اب ایسی زبان سننے کو ملے تو اردو زبان کے بانی تو ہمیں قبر میں بددعائیں دیتے ہوں گے۔۔۔۔
اردو بولنے میں جھجھک کیوں؟ کیا اردو زبان کے بانیوں نے کوئی قابل مذمت حرکت کردی ہے؟
اگر ایسا نہیں ہے تو اپنے حصے کاکام کر جائیے۔۔۔۔۔
نظم از روشنی
وہ نہیں ہے اپنوں میں
اگر وہ ہے پرایوں میں
تو پھر
کیوں یاد رکھتی ہوں
اسے اپنی دعاؤں میں
نظم از کشور ناہید
مجھے پڑھنے کو بیٹھے ہو تو آنکھیں ہاتھ پر رکھ لو
کہو! ہنستا ہوا تم نے کبھی بادل کو دیکھا ہے؟
کبھی بجلی کے دامن سے مہک پھوٹی ہے آنگن میں
سمندر ڈوب جانے کو کبھی دامن میں اترا ہے؟
مجھے پڑھنے کو بیٹھے ہو
توپرچھائیوں کو مت دیکھو
نہ دیکھو بجھتے انگاروں کی بھوبھل کو
کہ ان ہاتھوں سے شعلوں کی تمازت
حرف بنتی ہے
مرے ہونٹوں سے مردہ منظروں کو
لفظ ملتے ہیں
مری آہٹ کو سن کے
بادباں خواہش سفر پہنے
مگر میں کون ہوں؟
آنکھیں:- کہ صحرا، بادبےرونق
بدن پہ آبرو کی کہنگی کا زنگ ٹھہرا ہے
قدم شوریدگی کی دلدلوں میں
زخم خنداں ہیں
مجھے پڑھتے ہوئے
ہاتھوں پہ رکھی آنکھ بہہ نکلے
توہنس دینا
ذرا ٹھہرو۔۔۔۔
کہ تم سے اک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔
ادھر آؤ
کہ رستے میں کھڑے ہونا ہمیں اچھا نہیں لگتا
یہاں بیٹھو
کہ باتیں تو ہمیشہ ہم تسلی سے ہی کرتے ہیں
ہمیں اس طرح مت دیکھو
نہیں تو ہم تمھارے سامنے کچھ کہ نہ پائیں گے
ہاں تو بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو چھوڑو
کبھی موقع ملا تو پھر بتائیں گے۔۔۔۔۔۔۔
کبھی جو خواب تم دیکھو۔۔۔۔۔
جو دل کا راز تم دیکھو
مری چاہت کو تم جانو
کبھی جو دل سے تم مانو
تو بس اتنا صلہ دینا
ذرا سا مسکرا دینا۔۔۔۔
بچپن کے دن
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا آنسوؤں کا!!!!!
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں