تم نے تو کہ دیا محبت نہیں ملی
مجھکو تو یہ کہنے کی بھی مہلت نہیں ملی
نیندوں کے دیس جاتے کوئی خواب دیکھتے
لیکن دیا جلانے سے مہلت نہیں ملی
تجھ کو تو خیر شہر کے لوگوں کا خوف تھا
اور مجھکو اپنے گھر سے اجازت نہیں ملی
پھر اختلاف رائے کی صورت نکل پڑی
اپنی یہاں کسی سے بھی عادت نہیں ملی
بےزار یوں ہوئے کہ ترے عہد میں ہمیں
سب کچھ ملا سکوں کی دولت نہیں ملی
No comments:
Post a Comment