مجھے پڑھنے کو بیٹھے ہو تو آنکھیں ہاتھ پر رکھ لو
کہو! ہنستا ہوا تم نے کبھی بادل کو دیکھا ہے؟
کبھی بجلی کے دامن سے مہک پھوٹی ہے آنگن میں
سمندر ڈوب جانے کو کبھی دامن میں اترا ہے؟
مجھے پڑھنے کو بیٹھے ہو
توپرچھائیوں کو مت دیکھو
نہ دیکھو بجھتے انگاروں کی بھوبھل کو
کہ ان ہاتھوں سے شعلوں کی تمازت
حرف بنتی ہے
مرے ہونٹوں سے مردہ منظروں کو
لفظ ملتے ہیں
مری آہٹ کو سن کے
بادباں خواہش سفر پہنے
مگر میں کون ہوں؟
آنکھیں:- کہ صحرا، بادبےرونق
بدن پہ آبرو کی کہنگی کا زنگ ٹھہرا ہے
قدم شوریدگی کی دلدلوں میں
زخم خنداں ہیں
مجھے پڑھتے ہوئے
ہاتھوں پہ رکھی آنکھ بہہ نکلے
توہنس دینا
No comments:
Post a Comment