صبح صبح اک خواب کی دستک پر دروازہ کھولا
دیکھا، سرحد کے اس پار سے کچھ مہمان آئے ہیں
آنکھوں سے مانوس تھے سارے
چہرے سارے سنے سنائے
پاؤں دھوئے، ہاتھ دھلائے
آنگن میں آسن لگوائے
اور تنور پہ مکی کے کچھ
موٹے موٹے روٹ پکائے
پوٹلی میں مہمان
مرے پچھلے سالوں کی فصلوں کا گڑ لائے تھے
آنکھ کھلی تو گھر میں کوئی نہیں تھا
ہاتھ لگا کر دیکھا تو تنور ابھی تک بجھا نہیں تھا
اور ہونٹوں پر میٹھے گڑ کا ذائقہ ابھی تک چپک رہا تھا
خواب تھا شاید، خواب ہی ہو گا
سرحد پر کل رات سنا ہے چلی تھی گولی
سرحد پر کل رات سنا ہے کچھ خوابوں کا خون ہوا ہے
No comments:
Post a Comment