Thursday, December 3, 2009

کہ روشنی کو میرے ساتھ دفن نہیں ہونا چاہیئے

خُداؤں سے کہہ دو

جس دن مجھے موت آئے
اس دن بارش کی وہ جھڑی لگے
جسے تھمنا نہ آتا ہو
لوگ بارش اور آنسوؤں میں
تمیز نہ کر سکیں

جس دن مجھے موت آئے
اتنے پھول زمین پر کھلیں
کہ کسی اور چیز پر نظر نہ ٹھہر سکے
چراغوں کی لوین دیے چھوڑ کر
میرے ساتھ ساتھ چلیں
باتیں کرتی ہوئی
مسکراتی ہوئی

جس دن مجھے موت آئے
اس دن سارے گھونسلوں میں
سارے پرندوں کے بچوں کے پر نکل آئیں
ساری سرگوشیاں جلترنگ لگیں
اور ساری سسکیاں نقرئی زمزمے بن جائیں

جس دن مجھے موت آئے
موت میری اک شرط مان کرآئے
پہلے جیتے جی مجھ سے ملاقات کرے
مرے گھر آنگن میں میرے ساتھ کھیلے
جینے کا مطلب جانے
پھر اپنی من مانی کرے
جس دن مجھے موت آئے
اس دن سورج غروب ہونا بھول جائے
کہ روشنی کو میرے ساتھ دفن نہیں ہونا چاہیئے

2 comments:

  1. روشنی زندگی کا استعارہ ہے اورزندگی کبھی فنا نہیں ہوتی بس اک جہاں سے دوسرے جہاں تک منتقل ہوتی ہے۔اس بلاگ پر موجود روشنی کا انتخاب بے مثال ہے اور کشورناہید کی اس خوبصورت نظم کے اضافے سے اردو روشنی مزید نکھر گئی ہے۔

    ReplyDelete
  2. pasand aap ke
    shabash hamari...
    Keep it up Dear...

    ReplyDelete