بہتی راوی تیرے تٹ پر ۔------کھیت اور پھول اور پھل
تین ہزار برس بوڑھی تہذیبوں کے چھل بل
دو بیلوں کی جیوٹ جوڑی، اک ہالی اک ہل
سینہ ء سنگ میں بسنے والے خداوں کا فرمان
مٹی کاٹے مٹی چاٹے، ہل کی انی کا مان
آگ میں جلتا پنجر ہالی کاہے کو انسان
کون مٹائے اس کے ماتھے سے یہ دکھوں کی ریکھ
ہل کو کھینچنے والے جنوروں ایسے اس کے لیکھ
تپتی دھوپ میں تین بیل ہیں ،تین بیل ہیں دیکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نظم کا مفہوم اگر ایک سطر میں بیان کیا جائے تو کچھ یوںبنتا ہے معاشرے میں دو طبقے ہیں ایک مجبور، اور وسائل سے محروم جبکہ دوسرا ہر شے پر قابض اور مالامال، کسان اور جاگیرداروں کے مابین طبقاتی تفریق کا عمدہ پیرائے میں بیان مجید امجد کا کمال ہے۔
بورژوا اور پرولتاری طبقے کا ایسا بہترین نقشہ شاید ہی کسی اور نظم میں نظر آتا ہے۔ شاید ایسی ہی حقیقت نے معاشرے میں طبقاتی تقسیم کو جنم دیا ہے۔
مجید امجد کے ہاں موضوعات کے ساتھ ساتھ بحروں میں ایسا خوش رنگ تنوع پایا جاتا ہے کہ ہربار ایک نئی موسیقیت کا سا گماں ہونے لگتا ہے۔ ہڑپے کا ایک کتبہ ، مسمط کی ایک شکل، مثلث کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔ تین بندوں پر مشتمل یہ نظم اپنی انفرادیت یوں بھی قائم رکھتی ہے کہ بدیع و بیان کے اعتبار سے اس میں صنعتوں اور استعارات کا استعمال برمحل کیا گیا ہے۔ جیسا کہ دوسرے بند میں 'جاگیرداروں' کے لیے 'خداوں ' کا استعارہ، اور 'کسان ' کے لیے 'بیل' کا استعارہ انتہائی موزوں اور مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ اس نظم میں بحر کے ارکان کی ترتیب کچھ یوں ہے:
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع
نظم میں ہندی کے کچھ الفاظ کا بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے جیسے کہ تٹ، چھل بل، جیوٹ ، جوڑی، ریکھ ، لیکھ وغیرہ۔
تین ہزار برس بوڑھی تہذیبوں کے چھل بل
دو بیلوں کی جیوٹ جوڑی، اک ہالی اک ہل
سینہ ء سنگ میں بسنے والے خداوں کا فرمان
مٹی کاٹے مٹی چاٹے، ہل کی انی کا مان
آگ میں جلتا پنجر ہالی کاہے کو انسان
کون مٹائے اس کے ماتھے سے یہ دکھوں کی ریکھ
ہل کو کھینچنے والے جنوروں ایسے اس کے لیکھ
تپتی دھوپ میں تین بیل ہیں ،تین بیل ہیں دیکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نظم کا مفہوم اگر ایک سطر میں بیان کیا جائے تو کچھ یوںبنتا ہے معاشرے میں دو طبقے ہیں ایک مجبور، اور وسائل سے محروم جبکہ دوسرا ہر شے پر قابض اور مالامال، کسان اور جاگیرداروں کے مابین طبقاتی تفریق کا عمدہ پیرائے میں بیان مجید امجد کا کمال ہے۔
بورژوا اور پرولتاری طبقے کا ایسا بہترین نقشہ شاید ہی کسی اور نظم میں نظر آتا ہے۔ شاید ایسی ہی حقیقت نے معاشرے میں طبقاتی تقسیم کو جنم دیا ہے۔
مجید امجد کے ہاں موضوعات کے ساتھ ساتھ بحروں میں ایسا خوش رنگ تنوع پایا جاتا ہے کہ ہربار ایک نئی موسیقیت کا سا گماں ہونے لگتا ہے۔ ہڑپے کا ایک کتبہ ، مسمط کی ایک شکل، مثلث کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔ تین بندوں پر مشتمل یہ نظم اپنی انفرادیت یوں بھی قائم رکھتی ہے کہ بدیع و بیان کے اعتبار سے اس میں صنعتوں اور استعارات کا استعمال برمحل کیا گیا ہے۔ جیسا کہ دوسرے بند میں 'جاگیرداروں' کے لیے 'خداوں ' کا استعارہ، اور 'کسان ' کے لیے 'بیل' کا استعارہ انتہائی موزوں اور مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ اس نظم میں بحر کے ارکان کی ترتیب کچھ یوں ہے:
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع
نظم میں ہندی کے کچھ الفاظ کا بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے جیسے کہ تٹ، چھل بل، جیوٹ ، جوڑی، ریکھ ، لیکھ وغیرہ۔
Excellent Poem , Majeed Amjad has described the true picture of society.
ReplyDelete