Wednesday, December 23, 2009

امن کا ایک خواب۔۔۔ نظم از روشنی

بکھرے تھے جو خواب جزیرے میری بھیگی پلکوں پر
اشکوں کی موجوں میں بہہ بہہ کر سارے ڈوب گئے
دھرتی ماں کے سینے پہ تو زندہ رہنا مشکل ہے
ماں کے دامن میں چھپنے کو جانے والے خوب گئے
موت نقارہ بجنے لگے جب انسانوں کی بستی میں
جینا دوبھر ہوجائے جب ہوش و خرد اور مستی میں
جب کالی ماتا نفرت کی اپنا سحر چلاجائے
ہر اک کرن دریچے پر اندھیرا بن کر چھاجائے
عفریت، بلائیں اور اس دھرتی کے سارے کالے ناگ
آدم زادوں کی جنت کو آکر نرکھ بنا جائیں
تب جا کے اس بستی والے، دنیا نئی بناتے ہیں
نفرت بھرے ناگوں والی دھرتی کو چھوڑے جاتے ہیں
جب پریت کا ساون آتا ہے، اور پریم پرندے گاتے ہیں
تب بکھرے خواب سہانے ہوکر سچائی بن جاتے ہیں

No comments:

Post a Comment