Thursday, December 31, 2009

سال 2009 کی آخری نظم۔۔۔۔۔۔۔۔۔زاہد منیر عامر

درختو۔۔۔
تم بہت چپ چاپ ہو
دیکھو میری جانب
مسافر ہوں کسی گم نام ویرانے سے آیا ہوں
کوئی مونس، کوئی ہم دم، کوئی ساتھی نہ چارہ گر
مرے چاروں طرف بے روپ آوازوں کا جنگل ہے
وہ غل ہے، لب کشائی کے لیے مہلت نہیں ملتی
میں آوازوں کے جنگل میں کھڑا ہوں
اگر بولوں تو اک خوابیدہ جادو جاگ اٹھے گا
حصار ِ ذات میں رہنے کی فرد جرم لائے گا
طلسم ہم نشینی یک بہ یک ٹوٹے گا
لنگر چھوٹ جائے گا
درختو
تم بہت چپ چاپ ہو شاید
تمھین بھی سخن کی آرزو ہے
تمھارے لہلہاتے پنکھ آوازیں
تمھارا دھوپ میں جلنا
تمھارا حسن ، سبزہ، پھول، پھل، پتے
مجے اپنے سے لگتے ہیں
کوئی شے یاد آتی ہے
کوئی شے مرے باطن میں مسلسل لہلہاتی ہے
ہمکتی ہے
مگر رستہ نا پاکر ٹوٹ جاتی ہے
درختو
تم بہت چپ چاپ ہو
شاید۔۔۔۔ مرے من میں تمھارا عکس ہے
شاید مرے من کے شجر کا عکس ہوتم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جنھیں میں دوست سمجھا تھا
وہ اپنی ذات میں گم تھے
وہ اپنی ذات میں گم تھے
بہت رستہ رفاقت کے تصور میں کٹا لیکن
کھلی آنکھوں سے جب دیکھا
تو سب کچھ نامکمل تھا
فقط میرا توہم تھا
میں خالی ہاتھ لہراتا رہا تھا
تن ِ تنہا دیے کی لو بڑھاتا رہا تھا
دیے کی لو مرے سینے کے معدن سے
خراج ِ ہم نشینی کے لیے بے تاب رہتی تھی
مگر اب ۔۔۔خون کم ہونے لگا مری رگ ِ جاں میں
درختو
تم بہت چپ چاپ ہو
دیکھو ! یہ کم کم
کبھی یہ ٹمٹماتی ہے ، کبھی یہ تھرتھراتی ہے
مرے من کا شجر لرزاں ہے ۔ تم لرزاں ہو
منظر جو کبھی رقصاں تھے
اب پتوں کی صورت
زرا موسم بدل جائے تو پتے ٹوٹ جاتے ہیں
سہارے چھوٹ جاتے ہیں
درختو!تم بہت چپ چاپ ہو
شاید تمھیں بھی ٹوٹ جانا ہے

No comments:

Post a Comment