Tuesday, December 1, 2009

Prose ... written by Raushni

بکرا۔۔۔۔عید


نومبر آخری ہفتہ چل رہا تھا۔۔۔ بقرعید قریب تھی۔۔۔ ہر گھر میں بکرا بکرا ہورہی تھی۔۔۔ ناصر صاحب بھی اسی چکی میں پس رہے تھے آج کل۔۔۔۔ کہلاتے سیٹھ تھے لیکن ایک گن سیٹھوں والا نہیں تھا ان میں۔۔۔ بلا کے کنجوس تھے اور اپنی کنجوسی کو اپنی کفایت شعاری گردانتے تھے۔۔۔ بچوں کے لیےٹافیاں، مٹھائی کھلونےتک نہ لاتے تھے کہ عادتیں خراب ہوتی ہیں۔۔۔۔ ہاں کبھی کبھار حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر موسمی پھل ضرور لے آتے تھے۔۔۔ ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی عید پر قربانی لینے کا حوصلہ نہیں ہورہا تھا حالانکہ روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی انھیں۔۔

لیکن اس بار تو گھر والے ، باہر والے کفر توڑنے پر آمادہ تھے۔۔۔

دکان پر جاتے تو بکرا۔۔۔ گھر آتے تو بکرا۔۔۔۔ ہر سال ٹالتے ٹالتے سارے بہانے ختم کرچکے تھے۔۔ اس بار بیوی اور بچوں کے ساتھ ساتھ ماں کا اصرار بھی انھیں پریشان کیے جارہا تھا۔۔۔ پھر دوست یار سب پوچھنے لگے تھے۔۔۔

۔۔۔۔ ابا بکرا۔۔۔ آئے ہائے ابا ہوں بکرا تو نہیں ہوں میں۔۔۔ منےکے یاد دلانے پر بھنا کر بولے۔۔۔

اے میاں ناصر اس بار تو کہے دیتی ہوں کہ بکرا لے ہی آؤ ۔۔ اللہ بخشے تمھارے ابا مرحوم سال پہلے سے قربانی کا انتظام کرلیا کرتے تھے۔۔۔ اماں مغرب کی نماز پڑھ کے فارغ ہوئی تھیں ، وہیں جائے نماز پر بیٹھے بیٹھے گویا ہوئیں۔۔۔

ہاں ہاں اماں اب کی بار تو بکرا آئے گا۔۔۔۔ناصر میاں نے یوں یقین دلایا جیسے بکرا جہیز میں ملنے والا ہے۔۔۔

یوں کہہ کر ناصر میاں باورچی خانے کی طرف لپکے جیسے لوگ طویل انتظار کے بعد بس کی جانب بھاگتے ہیں۔۔۔ باورچی خانے میں پہنچے تو راشدہ بیگم بڑی تندہی کے ساتھ کھانا پکانے میں مشغول تھیں، میاں کو دیکھ کر بڑٰی محبت کے ساتھ کھانا نکالنے لگیں۔۔۔ ناصر میاں کو تو گمان ہونے لگا کہ جیسے وہ مہمان آئے ہیں۔۔۔ بیوی کا التفات ماں کی تلخ باتیں بھلا رہا تھا۔۔۔ راشدہ بیگم نے کھانا لاکر سامنے رکھا تو ناصر میاں نے بڑی خوشدلی سے پوچھا۔۔۔

خیریت ہے بیگم؟؟ آج مزاج بہت اچھا ہے؟؟؟

جی کیوں نہ ہو؟؟؟ میرے بڑے بھیا نے گائے خریدی ہے۔ کہہ رہے تھے اس بار گوشت کی کمی نہیں ہوگی میری بہن کو۔۔۔ پر میں نے بھی آپ کی طرف سے کہہ دیا کہ اس بار ہم بھی گائے کی قربانی دیں گے۔۔۔ تو آپ کب لارہے ہیں گائے؟؟

بڑی معصومیت سے سوال کیا گیا۔۔۔

گائے؟؟ نہیں نہیں ہم تو بکرا لائیں گے۔۔۔ ناصر میاں بڑے سٹپٹائے۔۔۔

گائے کی کیا ضرورت ہے؟؟

بکرا تو گھر میں پورا نہیں آئے گا۔۔۔ محلے میں کیا بانٹیں گے؟؟؟

راشدہ بیگم تنک کر بولیں۔۔۔

اچھا اچھا ٹھیک ہے دیکھتے ہیں کہ کیا کریں۔۔۔۔ ناصر میاں گھبراکر بولے۔۔

کیوں کہ گرج چمک تو ٹھیک تھی اگر موسلا دھار بارش شروع ہوجاتی تو بہت مشکل ہوجاتی۔۔۔

کہنے کو ناصر میاں نے کہ تو دیا پر اب مشکل میں پڑگئے کیوں کہ ماں کو تو ٹالا جاسکتا تھا پر بیوی ۔۔۔۔۔ خدا کی پناہ۔۔ اتنی ہمت کہاں سے لاتے۔۔۔

اٹھنے میں بھلائی جانتے ہوئے ٹی وی کے آگے آکر بیٹھ گئے۔۔۔۔

قربانی کی کھالیں ۔۔۔ ایدھی ویلفیئر سینٹر میں جمع کروائیں۔۔۔ بار بار اشتہار چلنے پر ناصر میاں کو کوفت ہونے لگی۔۔۔۔۔ ابو ہم قربانی کی کھال ایدھی والوں کو ہی دیں گے۔۔۔ ہے نا؟ سات سالہ گڈو نے بڑے لاڈ سے کہا۔۔۔

اوہو اب جان بھی چھوڑو۔۔۔ تنگ آکر کہنا چاہا لیکن اماں اور راشدہ بیگم بھی آکر بیٹھ گئی تھیں سو کچھ نہ بول سکے۔۔۔

لگتا ہے اب کی دفعہ تو قربانی کا جانور خریدنا ہی پڑے گا۔۔۔ناشتہ کرتے ہوئے ناصر میاں بڑبڑائے۔۔۔ ہاں ہاں کب چلیں؟؟ میں تو کہتی ہوں سب گھر والے چلتے ہیں آج۔۔۔۔ راشدہ بیگم نے جوش میں کہا۔۔۔

ہیں بھلا سب کو جانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم خود ہی لے آئیں گے۔۔۔ ناصر میاں نئے خرچے سے گھبرا کر بولے اور جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔

دکان پر آکر خاصے مصروف ہونے کے باوجود بینک سے پیسے لانا نہ بھولے۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر آکر دیکھا تو اماں کلف لگا سفید چکن کا جوڑا پہن کر صحن میں بیٹھی تھیں۔۔ اماں خیریت کہیں جانا ہے آپ کو؟؟ میاں ناصر نے بڑی فرمانبرداری سے پوچھا۔۔

آئے ہائے۔۔۔ تم بھول بھی گئے؟؟ اماں نے ناگواری سے دیکھا۔۔۔

اسی لمحے راشدہ بیگم زری کا بھاری بھرکم جوڑا زیب تن کیے باہر کو آئیں۔۔۔۔ تو میاں ناصر مزید پریشان ہوگئے۔۔۔ بچے الگ نئے کپڑے پہن کر پھر رہے تھے۔۔۔

کوئی مجھے بھی تو بتائے کہ کہاں کی تیاری ہے؟؟جھنجھلا کر پوچھے گئے اس سوال کا جواب ملا کہ ہم سب قربانی کا بکرا خریدنے جارہے ہیں۔۔۔

اماں آپ لوگوں کو جانے کی کیا ضرورت ہے؟ میں خود ہی لے آتا ہوں۔۔۔

کیوں؟؟؟ ہم کیوں نہ جائیں بھلا؟؟ اتنی بڑی خوشی ہے۔۔۔

اچھا چلیں پر اتنی تیاری کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ ناصر میاں اب تک حیران تھے۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ گاڑی پر لدے پھندے تمام لوگ یوں لگ رہے ھے جیسے داماد اور بیٹی کو لینے جارہے ہیں۔۔۔۔۔ اللہ اللہ کرکے بکرا منڈی پہنچے تو بلا کا رش تھا۔۔

تمام لوگ نیچے اترے تو بکرا منڈی میں ایک ہلچل مچ گئی۔۔ لوگ بکروں سے زیادہ سجے سنورے لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔۔۔

اب پہلے والے ریوڑ پر پہنچے ہی تھے کہ اماں نے بکروں کے منہ پکڑ پکڑ کر دانت چیک کرنے شروع کردیے، دانتوں کے بعد کانوں کی صفائی چیک کی گئی۔۔ پھر دم، کھال کی نرمی، سینگ وغیرہ۔۔۔

اوہو ماں جی چھوڑیں بے چارے گھبرا جائیں گے۔۔۔۔ ناصر میاں نے دکان دار کی خوفناک نظروں سے ڈر کر کہا۔۔۔

ارے دیکھ کر ہی لیتے ہیں سارے۔۔۔ دیکھنے سے کیا گوشت کم ہوجائے گا؟؟اماں نے غصے سے گھورا۔۔۔

اچھا تو بھائی اس بکرے کا کیا لوگے۔؟؟؟ ایک بکرا جو سب کی نظروں کو بھایا تھا ، کے بارے میں پوچھا۔۔۔

۲۰،۰۰۰ روپے نقد۔۔۔ لوں گا بھائی صاحب۔۔۔

ہیں؟؟؟؟؟؟ کیا کہا؟ؕ؟؟؟

بیس ہزار روپے؟؟ ارے ہٹو بیس ہزار کے تو تم بھی نہیں ہو۔۔۔ناصر میاں چمک کر بولے۔۔ جیب میں جتنے پیسے ہیں سب کے سب تمھیں دے جاؤں کیا؟

اماں جی پورا بازار پھر لیں کہیں سے ایسا بکرا مل جائے تو مفت دے دوں گا۔۔۔ دکان دار کا رخ اماں اور راشدہ بیگم کی طرف ہوگیا۔۔۔

چل بیٹا دے دے ۔۔۔اماں پچکار کر بولیں۔۔۔

نہ اماں نہ۔۔ دفع کیجیے

۔۔۔ ساری زندگی لے کر بیٹھے رہو توبھی کوئی لینے نہیں آئے گا۔۔ ناصر میاں نے جیب پر ہاتھ رکھ کر خالص رشتہ کرانے والیوں کی طرح بددعا دی۔۔۔ اور آگے چل پڑے۔۔۔

آگے چل کر کئی دکانوں سے بکرے پسند کیے گئے۔۔۔ لیکن قیمت پر آکر ناصر میاں بپھر جاتے۔۔۔

نہ اماں یہ ایسے ہی کہتے ہیں۔۔۔ تھوڑا آگے جاؤ تو پیچھے سے آواز دے کر بلا لیتے ہیں۔۔۔

ابھی تک تو کسی نے آواز نہیں دی۔۔۔ راشدہ بیگم بری طرح تپ کر بولیں۔۔۔

میرے بھیا نے بھی تو ۳۵۰۰۰ روپے کی گائے خریدی ہے نا۔۔۔

ایسا ایمان ہو ہر کسی کا۔۔۔

اے بہو میرا بیٹا بھی کوئی ایسا گیا گزرا نہیں ہے۔۔۔ نکالو ناصر میاں بیس ہزار۔۔۔ ہم وہی بکرا خریدیں گے۔۔۔

اب ماں اور بیوی کی ٹھن گئی تھی۔۔۔ ناصر میاں برے پھنسے۔۔۔

لیکن اماں وہ میں تو کہ رہا تھا کہ۔۔۔

کیا وہ وہ لگا رکھی ہے تو نے؟؟؟ یہ میری ضد ہے۔۔۔ بہو نے مجھے طعنہ دیا ہے۔۔۔

نکال بیس ہزار روپے۔۔۔ نہیں تو میں قیامت تک تجھے نہیں معاف کروں گی۔۔۔ اماں کی آواز خاصی اونچی ہوگئی اور بچے کھچے باقی لوگ بھی متوجہ ہونے لگے تو ناصر میاں کو چارو ناچار پیسے دینے ہی پڑے۔۔۔

اب بکرے والے کے پاس گئے تو اس بکرے کا سودا ہوچکا تھا۔۔ ایک بڑے میاں بکرے کی رسی پکڑے کھڑے تھے۔۔۔ دکاندار انھیں خوبیاں گنوارہا تھا۔۔۔

اے ہٹ پیچھے چھوڑ ہمارا بکرا۔۔۔ اماں نے بڑے میاں پر حملہ کردیا۔۔۔

اوہو۔۔۔ کیا ہوا خاتون؟؟ یہ بکرا چوری کا ہے کیا؟ بڑے میاں گھبرا کر بولے۔۔۔

تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟؟ ابھی پولیس کو بلاتا ہوں میں۔۔۔ چوری کا مال بیچتے ہو؟؟؟ بڑے میاں بھی ہتھے سے اکھڑ گئے۔۔۔

بکرے کا مالک تو بے چارہ پریشان ہوگیا۔۔۔۔ نہیں نہیں صاحب یہ تو پہلے دیکھ کر گئے تھے بس۔۔۔

چوری کا کیوں ہم نے یہ بکرا خریدا ہے۔۔۔ پورے بائیس ہزار کا۔۔۔اے لے پکڑ پیسے۔۔ ہمارا بکرا کسی اور کو دیتے ہوئے شرم نہ آئی تجھے؟؟

اماں نے دکاندار کو لتاڑا۔۔۔

ہم توذرا کی ذرا آگے ہواخوری کرنے گئے تھےکہ تو نے ہمارے بکرے کا مول بھی لگادیا۔۔۔

وہ بے چارہ پریشان ہوگیا۔۔۔

اچھا اماں جی آپ لے جائیں پر الزام تو نہ لگائیں۔۔۔

خیر جیسے تیسے معاملہ رفع دفع ہوا۔۔۔

بکرے کی قیمت پکڑا کر واپسی کی سوچنے لگے کیونکہ بکرا خاصا صحت مند تھا اور گاڑی چھوٹی۔۔

بھائی صاحب یہ لشکر کیوں لائے ہو؟؟ گھر والوں کو اعتبار نہیں تھا؟؟

کسی منچلے نے آواز کسی۔۔۔

ارے بچوں کو میری گود میں بٹھا دینا۔۔۔اماں چلائیں۔۔۔

ہاں بچے۔۔۔ ارے بچے کہاں گئے؟؟؟

ہائے میں مرجاؤں بچوں کو کہاں چھوڑ آئے۔۔۔ اماں نے ساتھ کھڑے کسی شریف آدمی کو ناصر میاں کے دھیان میں دو ہتڑ مارے۔۔۔ بےچارہ گھبرا کر پیچھے ہٹا۔۔۔

ارے راشدہ۔۔۔ چل میرے ساتھ۔۔۔ہائے ہائے میری قسمت۔۔۔

لوگ کیا کہیں گے ؟؟؟ بکرا خریدنے گئے تھے سارے بچے گنوا کر آگئے۔۔۔

ہائے کچھ کرو کہیں ڈھونڈو میرے بچوں کو۔۔۔

اماں کے واویلے سن کر اردگرد کے تمام لوگ متحرک ہوگئے، کوئی کپڑوں کارنگ پوچھنے لگا کوئی بچوں کے نام اور عمر پوچھ رہاتھا۔۔۔

ناصر میاں کی کیفیت عجیب تھی ایک ہاتھ میں بکرا تھامے دوسرے ہاتھ سے بھیڑ ہٹاتے ہوئے ہر کسی سے بچوں کا پوچھتے پھر رہے تھے۔۔۔

ادھر اماں کے واویلے ۔۔۔ راشدہ کی دھاڑیں۔۔۔۔

اچھا خاصا رش لگ گیا۔۔۔

لوگ سمجھے کوئی مرگیا ہے شاید۔۔۔

جسے دیکھو تاسف بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

پوری بکرا منڈی میں بچوں کو ڈھونڈا جارہا تھا۔۔۔

اتنے میں ناصر میاں بکرا ہاتھ میں لیے پھر آگئے۔۔۔ کسی نے کہا رپورٹ درج کراؤ۔۔۔ پولیس کو فون کیا گیا۔۔۔

پولیس بھی پہنچ گئی۔۔۔

اماں نے نے تھانیدار کو دیکھتے ہی پھر سے رونا شروع کردیا۔۔۔

ہائے میرے بچے۔۔۔۔۔

تھانیدار اتنی دلگیر صورتحال دیکھ کر آبدیدہ ہوگیا۔۔۔

اماں جی حوصلہ کریں۔۔۔

مل جائیں گے۔۔۔ زیادہ دور نہیں گیا ہوگا ابھی۔۔۔

اوئے پوری منڈی میں چکر لگا ذرا۔۔۔

اماں جی کس نے کہا تھا آپ کو کہ بچوں کو ساتھ لے کر آئیں بھلا؟؟؟

اے تو کیا بچوں کو گھر میں بند کرکے آتے؟؟ ننھی ننھی جانوں پر اتنا ظلم کریں؟؟اماں اپنا واویلا بھول کر کسی کے گلے پڑگئیں۔۔۔

اچھا بہن رپورٹ لکھوائیں۔۔۔

بچے کتنے ہیں ؟؟ تھانیدار نے لکھنا شروع کیا۔۔۔

بھائی تین ہیں۔۔۔

اچھا کیا عمر ہے تینوں کی۔۔۔

ایک سات سال کا ہے دوسرا پانچ سال کا اور تیسرا یہ میری گود میں ہے۔۔۔راشدہ نے دوپٹے سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے بتایا۔۔۔

اوہو بہن جی جو بچے گم شدہ ہیں ان کا پوچھ رہا ہوں۔۔۔پولیس والا جھنجھلا گکر بولا۔۔۔

اچھا کپڑے کس رنگ کے پہنے ہین انھوں نے؟؟

بڑے والے نے خاکی رنک کی پینٹ کے ساتھ نیلی قمیض پہنی ہے۔۔۔

اور چھوٹے نے کدو رنگ کا ریڈی میڈ۔۔۔۔

آئے ہائے راشدہ تونے بچوں کو سویٹر نہیں پہنائے تھے کیا؟؟

کتنی بار کہا ہے اپنی عقل استعمال کیا کر۔۔۔ ہائے بےچارے سردی میں سن ہورہے ہوں گے۔۔۔

اچھا بہن جی کوئی نشانی وغیرہ تھانیدار نے استفسار جاری رکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔

نشانی؟؟ کونسی نشانی؟؟ شرم نہیں آتی شادی شدہ عورت سے نشانی مانگ رہے ہو؟؟ تیرے گھر میں مائیں بہنیں نہیں ہیں کیا؟؟؟

پوری عقل کی راشدہ بیگم تو ہتھے سے اکھڑ گئیں۔۔۔

اوہو بہن جی میرا مطلب ہے کہ بچوں کی کوئی نشانی۔۔۔ گلے میں کوئی چین ؟؟ جیسے ادھر گاڑی میں یہ بچوں نے پہنی ہوئی ہیں؟؟

کدھر ؟؟؟

ہائے یہی تو ہیں میرے بچے۔۔۔۔

ہائے اماں میرے پھول جیسے بچے۔۔۔

مل گئے۔۔۔ ارے کوئی ریحان کے ابا کو بلائے۔۔۔

انھیں بتائے کوئی کہ ہمارے بچے مل گئے۔۔۔

کم بخت ایسی گہری نیند سوئے ہوئے ہیں۔۔۔ ہم نے گاڑی میں کیوں نہ دیکھ لیا پہلے۔۔۔

اتنے میں ایک طرف سے شور اٹھا اور ایک بکرا آگے آگے بھاگتا ہوا آیا پیچے رسی پکڑے ناصر میاں گھسٹتے آرہے تھے۔۔۔

ارے بھائی پکڑو پکڑو۔۔۔۔

بکرا صبح سے بھوکا تھا شاید۔۔۔ کوئی چارہ لے کر جارہا تھا کہ بکرے نے دوڑ لگادی۔۔۔ ناصر میاں بھی بچوں کو بھول کر پوری منڈی میں گھسٹتے رہے لیکن رسی نہیں چھوڑی۔۔۔

جیسے تیسے لوگوں پکڑ دھکڑ کر قابو کیا۔۔۔۔

اب منظر کچھ ایسا تھا کچھ لوگ گاڑی میں جگہ بنارہے تھے، باقی بکرے کو پکڑ کرکھڑے تھے۔۔۔

سب لوگ بیٹھ گئے تو بکرے کو ڈگی میں باندھ کر بٹھایا گیا۔۔۔

یوں یہ بکرا بردار عظیم لشکر بکرا منڈی سے گھر کی طرف رواں دواں ہو۔۔۔اماں خوش تھیں کہ ناصر میاں کی کنجوسی تو ختم ہوئی۔۔۔

راشدہ بیگم بچوں کو چھپائے بکرے کی آمد پر خوش تھیں۔۔۔

ناصر میاں کے حواس بھی بحال ہوچکے تھے۔۔۔۔۔


No comments:

Post a Comment