Friday, December 25, 2009

دو اینٹ کا حجرہ۔۔۔۔۔کشور ناہید

مجھے پڑھنے کو بیٹھے ہو تو آنکھیں ہاتھ پہ رکھ لو
کہو ہنستا ہوا تم نے کبھی بادل کو دیکھا ہے
کبھی بجلی کے دامن سے مہک پھوٹی ہے آنگن میں
سمندر ڈوب جانے کو کبھی دامن میں اترا ہے؟
مجھے پڑھنے کو بیٹھے ہو
تو پرچھائیوں کو مت دیکھو
نہ دیکھو بجھتے انگاروں کی بھوبھل کو
کہ ان ہاتھوں سے شعلوں کی تمازت حرف بنتی ہے
مرے ہونٹوں سے مردہ منظروں کولفظ ملتے ہیں
مری آہٹ کو سن کے بادباں خواہش ِ سفر پہنے
مگر میں کون ہوں؟
آنکھیں:- کہ صحرا، باد بے رونق
بدن پہ آرزو کی کہنگی کا زنگ ٹھہرا ہے
قدم شوریدگی کی دلدلوں میں زخم خنداں ہیں
مجھے پڑھتے ہوئے
ہاتھوں پہ رکھی آنکھ بہہ نکلے
تو ہنس دینا۔۔۔

No comments:

Post a Comment