Tuesday, December 29, 2009

کرو جو بات کرنی ہے۔۔۔۔امجد اسلام امجد۔۔۔۔

کرو جو بات کرنی ہے
اگر اس آس پہ بیٹھے کہ دنیا
بس تمھیں سننے کی خاطر
گوش بر آواز ہوکر بیٹھ جائے گی
تو ایسا ہو نہیں سکتا
زمانہ ، ایک لوگوں سے بھرا فٹ پاتھ ہے جس پر
کسی کو ایک لمحے کے لیے رکنا نہیں ملتا
بٹھاو لاکھ تم پہرے
تماش گاہ ِ عالم سے گزرتی جائے گی خلقت
بنا دیکھے بنا ٹھہرے۔۔۔۔
جسے تم وقت کہتے ہو
دھند لکا سا کوئی جیسے اس زمیں سے آسماں تک ہے
یہ کوئی خواب ہے جیسے
نہیں معلوم کچھ اس خواب کی مہلت کہاں تک ہے
کرو جو بات کرنی ہے

No comments:

Post a Comment