Thursday, December 31, 2009
سال 2009 کی آخری نظم۔۔۔۔۔۔۔۔۔زاہد منیر عامر
2009۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالات اپنے شہر کے یکسر بدل گئے
پہلےسےخدوخال ہیں نہ پہلےسےاب خیال
کتنا ہم ایک سال کے اندر بدل گئے
Wednesday, December 30, 2009
ر ِیت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے۔۔۔۔۔۔ مرغوب حسین طاہر
ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے
دیکھ کر پرندوں کو باندھنا نشانوں کا ،
ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے
تم ابھی نئے ہو ناں! اس لیے پریشاں ہو ،
آسمان کی جانب اس طرح سے مت دیکھو
آفتیں جب آنی ہوں ، ٹوٹنا ستاروں کا ،
ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے
شہر کے یہ باشندے بو کے بیج نفرت کے ،
انتظار کرتے ہیں فصل ہو محبت کی
چھوڑ کر حقیقت کو ڈھونڈنا سرابوں کا ،
ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے
اجنبی فضاؤں میں اجنبی مسافر سے ،
اپنے ہر تعلق کو دائمی سمجھ لینا
اور جب بچھڑ جانا مانگنا دعاؤں کا ،
ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے
خامشی مرا شیوہ گفتگو ہنر اُس کا،
میری بے گناہی کو لوگ کیسے مانیں گے
بات بات پر جبکہ مانگنا حوالوں کا ،
ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے
پیش لفظ۔۔۔۔۔ادا جعفری
نادانی کے دن تھے
کہ میں نے وقت کے ساحر سے
پوچھا تھا پتا اپنا
اور اس جادو کے لمحے نے
نہ جانے کیا کہا مجھ سے
نہ جانے کیا سنا میں نے
کہ میں اب تک سفر میں ہوں
Tuesday, December 29, 2009
یا سمیع یا بصیر۔۔۔۔۔امجد اسلام امجد
تو ایسے میں
اسے آواز پر قابو نہیں رہتا
وہ اتنے زور سے فریاد کرتا ، چیختا اور بلبلاتا ہے
کہ جیسے وہ زمیں پر اور خدا ہو آسمانوں میں
مگر ایسا بھی ہوتا ہے
کہ اس کی چیخ کی آواز کے رکنے سے پہلے ہی
خدا کچھ اس قدر نزدیک سے سے اور اس قدر
رحمت بھری مسکان سے اس کو تھپکتا اوراس کی بات سنتا ہے
کہ فریادی کو اپنی چیخ کی شدت
صدا کی بے یقینی پر ندامت ہونے لگتی ہے
ہڑپے کا ایک کتبہ۔۔۔۔مجید امجد
تین ہزار برس بوڑھی تہذیبوں کے چھل بل
دو بیلوں کی جیوٹ جوڑی، اک ہالی اک ہل
سینہ ء سنگ میں بسنے والے خداوں کا فرمان
مٹی کاٹے مٹی چاٹے، ہل کی انی کا مان
آگ میں جلتا پنجر ہالی کاہے کو انسان
کون مٹائے اس کے ماتھے سے یہ دکھوں کی ریکھ
ہل کو کھینچنے والے جنوروں ایسے اس کے لیکھ
تپتی دھوپ میں تین بیل ہیں ،تین بیل ہیں دیکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نظم کا مفہوم اگر ایک سطر میں بیان کیا جائے تو کچھ یوںبنتا ہے معاشرے میں دو طبقے ہیں ایک مجبور، اور وسائل سے محروم جبکہ دوسرا ہر شے پر قابض اور مالامال، کسان اور جاگیرداروں کے مابین طبقاتی تفریق کا عمدہ پیرائے میں بیان مجید امجد کا کمال ہے۔
بورژوا اور پرولتاری طبقے کا ایسا بہترین نقشہ شاید ہی کسی اور نظم میں نظر آتا ہے۔ شاید ایسی ہی حقیقت نے معاشرے میں طبقاتی تقسیم کو جنم دیا ہے۔
مجید امجد کے ہاں موضوعات کے ساتھ ساتھ بحروں میں ایسا خوش رنگ تنوع پایا جاتا ہے کہ ہربار ایک نئی موسیقیت کا سا گماں ہونے لگتا ہے۔ ہڑپے کا ایک کتبہ ، مسمط کی ایک شکل، مثلث کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔ تین بندوں پر مشتمل یہ نظم اپنی انفرادیت یوں بھی قائم رکھتی ہے کہ بدیع و بیان کے اعتبار سے اس میں صنعتوں اور استعارات کا استعمال برمحل کیا گیا ہے۔ جیسا کہ دوسرے بند میں 'جاگیرداروں' کے لیے 'خداوں ' کا استعارہ، اور 'کسان ' کے لیے 'بیل' کا استعارہ انتہائی موزوں اور مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ اس نظم میں بحر کے ارکان کی ترتیب کچھ یوں ہے:
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع
نظم میں ہندی کے کچھ الفاظ کا بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے جیسے کہ تٹ، چھل بل، جیوٹ ، جوڑی، ریکھ ، لیکھ وغیرہ۔
کرو جو بات کرنی ہے۔۔۔۔امجد اسلام امجد۔۔۔۔
کرو جو بات کرنی ہے
اگر اس آس پہ بیٹھے کہ دنیا
بس تمھیں سننے کی خاطر
گوش بر آواز ہوکر بیٹھ جائے گی
تو ایسا ہو نہیں سکتا
زمانہ ، ایک لوگوں سے بھرا فٹ پاتھ ہے جس پر
کسی کو ایک لمحے کے لیے رکنا نہیں ملتا
بٹھاو لاکھ تم پہرے
تماش گاہ ِ عالم سے گزرتی جائے گی خلقت
بنا دیکھے بنا ٹھہرے۔۔۔۔
جسے تم وقت کہتے ہو
دھند لکا سا کوئی جیسے اس زمیں سے آسماں تک ہے
یہ کوئی خواب ہے جیسے
نہیں معلوم کچھ اس خواب کی مہلت کہاں تک ہے
کرو جو بات کرنی ہے
یا پھر پہلی بار وہ کھل کر روئی تھی۔۔۔ ۔۔۔عجیب پہیلی۔۔۔ محسن نقوی
وہ لڑکی بھی عجب ایک پہیلی تھی
پیاسے ہونٹ تھے آنکھ سمندر جیسی تھی
سورج اس کو دیکھ کے پیلا پڑتا تھا
وہ سرما کی دھوپ میں دھل کر نکلتی تھی
اس کو اپنے سائے سے ڈر لگتا تھا
سوچ کے صحراوں میں وہ تنہا ہرنی تھی
آتے جاتے موسم اس کو ڈستےتھے
ہنستے ہنستے پلکوں سے رو پڑتی تھی
آدھی رات گنوا دیتی تھی چپ رہ کر
آدھی رات کے چاند سے باتیں کرتی تھی
دور سے اجڑے مندر جیسا گھر اس کا
وہ اپنے گھر میں اکلوتی دیوی تھی
موم سے نازک جسم سحر کو دکھتا تھا
دیے جلا کر شب بھر آپ پگھلتی تھی
تیز ہوا کو روک کے اپنے آنچل پر
سوکھے پھول اکٹھے کرتی پھرتی تھی
سب پر ظاہر کردیتی تھی تھی بھید اپنا
سب سے اک تصویر چھپائے پھرتی تھی
کل شب چکنا چُور ہوا تھا دل اس کا
یا پھر پہلی بار وہ کھل کر روئی تھی
شاعر۔۔۔۔مجید امجد۔۔۔۔۔۔
یہ دنیا یہ بے ربط سی ایک زنجیر
یہ دنیا یہ اک نامکمل سی تصویر
یہ دنیا نہیں میرے خوابوں کی تعبیر
میں جب دیکھتا ہوں کہ یہ بزم ِ فانی
غم ِ جاودانی کی ہے اک کہانی
تو چیخ اٹھتی ہے میری باغی جوانی
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
گناہوں میں لتھڑے رواجوں کی دنیا
محبت کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہاں پر کلی دل کی کھلتی نہیں ہے
کوئی چق دریچوں کی ہلتی نہیں ہے
مرے عشق کو بھیک ملتی نہیں ہے
اگر میں خدا اس زمانے کا ہوتا
تو عنوان اور اس فسانے کا ہوتا
عجب لطف دنیا میں آنے کا ہوتا
Saturday, December 26, 2009
غالب کا فرنگی شاگرد۔۔۔۔۔۔۔ آزاد فرانسیسی
غالب کا فرنگی شاگرد۔۔۔ آزاد فرانسیسی
اردو ادب میں غالب کا مقام ایک ایک ستون کا سا ہے جس نے نہ صرف شاعری بلکہ نثر میں بھی ایک منفرد حیثیت منوائی۔ یوم ِ غالب کے موقع پرغالب پر بہت سے لوگ لکھتے ہیں لیکن میں بذات خود اس امر کی قائل ہوں کہ غالبیات کے ضمن میں کچھ ایسے قابل فخر حقائق جن کو عام لوگ نہیں جانتے، پر روشنی ڈالی جائے۔ یہ موضوع تلمیذان ِ غالب سے متعلق ہے۔ یوں تو غالب سے متعدد نامور شعرا نے فیض اٹھایا ، لیکن ہم یہاں ایک ایسے شاگرد کی بات کرنے جارہے ہیں جو کہ نہ ہندوستانی تھا، نہ ایشیائی تھا۔ اس شخص کو اردو ادب کی تاریخ میں "غالب کے فرنگی شاگرد" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
الیگزینڈر ہیڈرلی۔۔۔ 1829 کو پیدا ہوا۔ اردو ادب میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ فرانس کے باشندے ہونے کے باوجود اردو میں ایسے باکمال تھے کہ ان کی شاعری سے ذرہ بھر غیرملکی ہونے کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے 1857 کے بعد اسلام قبول کرکے جان محمد نام اختیار کیا۔ انھوں نے باقاعدہ شاگردی نواب زین العابدین کی اختیار کی۔ مرزا غالب سے خطو کتابت میں اصلاح لیا کرتے تھے۔ غالب کے بہت بڑے مداح تھے ۔ اردو شاعری میں "آزاد" تخلص کیا کرتے تھے۔ ناقدین نے انھیں آزاد فرانسیسی کا نام سے بھی پکارا ہے۔ آزاد اردو کے قدیم ناقدین کے ہاں خاصے نامور تھے، پرانے جراید میں ان کا بہت تذکرہ پڑھنے کو ملتا ہے جو کہ نہ صرف ان کے فن و شاعری پر ہے بلکہ ان کی شخصیت پر بھی ہے۔ غالب کے رنگ میں ان کی ایک غزل کا مطلع کچھ یوں ہے
میں نہ وحشت میں کبھی سوئے بیاباں نکلا
واں سے دلچسپ مرا خانہ ء ویراں نکلا
آزاد فرانسیسی کا دیوان ان کی وفات کے دو سال بعد مطبع احمد نگر سے طبع ہوا۔ یہ دیوان 175 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کے دو دیباچے تحریر کیے گئے ۔ ایک فارسی زبان میں جو کہ منشی شوکت علی نے تحریر کیا۔ دوسرا اردو زبان میں تھامس ہیڈرلی نے تحریر کیا جو کہ اس دیوان کے مرتب تھے۔ ان کے دیباچے میں سے ایک اقتباس کچھ یوں ہے
"۔۔۔۔۔۔ ۔ اشعار اس مرحوم کے جو پریشاں جابجا پڑے پائے گویا سونے میں زمرد اور یاقوت جڑے پائے۔ خیال آیا کہ ان جواہر کو بکھرا پڑا نہ رہنے دیجیے اور ان سب اشعار کو ردیف وار جمع کرکے دیوان مرتب کیجیے تاکہ و کوئی دیکھے وہ یہ کہے کہ اگرچہ اس شخص کی تھوڑی زندگی تھی مگر واہ اس قلیل مدت میں کیا گہر افشانی تھی۔"
[بحوالہ: "مقالات ِ ماجد" صفحہ :11]
آزاد فرانسیسی کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
نوید اے دل کے رفتہ رفتہ ہوگیا ہے اس کا حجاب آدھا
ہزار مشکل سے بارے رخ پر سے اس نے الٹا نقاب آدھا
خدا کی قدرت ہے ورنہ آزاد میرا اور ان بتوں کا جھگڑا
نہ ہوگا فیصل تمام دن میں مگر بروز حساب آدھا
جان محمد آزاد یا الیگزینڈر ہیڈرلی آزاد کے فن و شخصیت پر درج ذیل مقالات ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں
مخزن مارچ 1919 ء میں سید محمد فاروق کا مقالہ الیگزینڈر ہیڈرلی
ادبی دنیا جنوری 1938 میں تمکین کاظمی کا مقالہ "ایک فرانسیسی اردو شاعر"
عبدالماجد دریا آبادی کا مفصل مقالہ "غالب کا فرنگی شاگرد" مقالات ِماجد
غالب کا یہ فرنگی شاگرد 27 جوائی 1961 کو وفات پاگیا۔
~
Friday, December 25, 2009
دو اینٹ کا حجرہ۔۔۔۔۔کشور ناہید
کس طرح یہ ممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بادل نے کل رات کو
مجھ کو روتے دیکھا تھا
یہ منظر اس کو
اتنا بھایا
کہ رات سے پانی برس رہا ہے
مرہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Wednesday, December 23, 2009
امن کا ایک خواب۔۔۔ نظم از روشنی
بکھرے تھے جو خواب جزیرے میری بھیگی پلکوں پر
اشکوں کی موجوں میں بہہ بہہ کر سارے ڈوب گئے
دھرتی ماں کے سینے پہ تو زندہ رہنا مشکل ہے
ماں کے دامن میں چھپنے کو جانے والے خوب گئے
موت نقارہ بجنے لگے جب انسانوں کی بستی میں
جینا دوبھر ہوجائے جب ہوش و خرد اور مستی میں
جب کالی ماتا نفرت کی اپنا سحر چلاجائے
ہر اک کرن دریچے پر اندھیرا بن کر چھاجائے
عفریت، بلائیں اور اس دھرتی کے سارے کالے ناگ
آدم زادوں کی جنت کو آکر نرکھ بنا جائیں
تب جا کے اس بستی والے، دنیا نئی بناتے ہیں
نفرت بھرے ناگوں والی دھرتی کو چھوڑے جاتے ہیں
جب پریت کا ساون آتا ہے، اور پریم پرندے گاتے ہیں
تب بکھرے خواب سہانے ہوکر سچائی بن جاتے ہیں
Tuesday, December 22, 2009
احسان دانش۔۔۔۔۔۔ تو مجھے بھول گیا ہو جیسے
یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موج ِ صبا ہو جیسے
لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
تو مجھے بھول گیا ہو جیسے
موت آئی بھی تو اس ناز کے ساتھ
مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے
ہچکیاں رات کو آتی ہی گئیں
تونے پھر یاد کیا ہو جیسے
ایسے انجان بنے بیٹھے ہو
تم کو کچھ بھی نہ پتا ہو جیسے
زندگی بیت رہی ہے دانش
کسی بے جرم کی سزا ہو جیسے
Sunday, December 13, 2009
فراز احمد فراز۔۔۔
کہاں گیا میرے شہر کے مسافر تو
میں جانتا ہوں زمانہ بدل دے گا تجھے
میں مانتا ہوں ایسا نہیں بظاہر تو
فراز تونے تو اسے مشکلوں میں ڈال دیا
زمانہ صاحبِ زر، اور صرف شاعر تو
۔۔۔۔۔۔
غزل کے چند اشعار ہیں۔۔ لیکن ان کی صحت اور تلفظ حتمی نہیں ہے۔ اوزان مشکوک ہیں۔۔۔ معزرت
Friday, December 11, 2009
مکان اور مکین۔۔۔۔شاعر نامعلوم
اپنے نام کی تختی والی ایک عمارت
کتنے دکھوں کی اینٹیں چن کر گھر بنتی ہے
پتھر پتھر جوڑ کے دیکھو
میں نے بھی ایک گھر بنایا
رنگوں پھولوں تصویروں سے اس کو سجایا
دروازے کی لوح پر اپنا نام لکھایا
لیکن اس کے ہر کمرے میں تم رہتے ہو
Thursday, December 10, 2009
ایک شعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بازی جیت جاتا ہے میرے چالاک ہونے تک!!!!!
Tuesday, December 8, 2009
گیت ادھورے خواب ادھورے یہ مزدوری ٹھیک نہیں۔۔۔
جو کہنا ہے کھل کر کہہ دے بات ادھوری ٹھیک نہیں
کوئی حل یا کوئی بہانہ یا کوئی مناسب راہ نکال
مجھ سے ایسے ملتے رہنا ، غیر ضروری ٹھیک نہیں
روز محبت ہوجاتی ہے چلتے پھرتے لوگوں سے
گیت ادھورے خواب ادھورے یہ مزدوری ٹھیک نہیں
ہم محفل میں آئے تو وہ پیچھے جا کر بیٹھ گئے
ہم سے دوری اچھی ہے، پر اتنی دوری ٹھیک نہیں
Monday, December 7, 2009
میں اور کافی کا اک کپ۔۔۔۔نظم از روشنی
میں اور وہ.........
ساتھ میں بیٹھے رہتے ہیں
ہونٹوں سے ہونٹ ملاتے ہیں
اور باتیں کرتے رہتے ہیں
اچھی باتیں، میٹھی باتین
کڑوی باتیں، گہری باتیں
پھر کچھ تھک سے جائیں تو
چپ چپ بیٹھے رہتے ہیں
خوامخواہ
میں اس سے روٹھی رہتی ہوں
وہ مجھ سے اینٹھا رہتا ہے
پھر یوں ہوتا ہے اکثر
وہ مجھ پہ ہنسنے لگتا ہے
اور میں مان ہی جاتی ہوں
پھر ہم جلنے لگتے ہیں
اور ساتھ میں چلنے لگتے ہیں
کڑوی اور کسیلی باتیں
Thursday, December 3, 2009
کہ روشنی کو میرے ساتھ دفن نہیں ہونا چاہیئے
جس دن مجھے موت آئے
اس دن بارش کی وہ جھڑی لگے
جسے تھمنا نہ آتا ہو
لوگ بارش اور آنسوؤں میں
تمیز نہ کر سکیں
جس دن مجھے موت آئے
اتنے پھول زمین پر کھلیں
کہ کسی اور چیز پر نظر نہ ٹھہر سکے
چراغوں کی لوین دیے چھوڑ کر
میرے ساتھ ساتھ چلیں
باتیں کرتی ہوئی
مسکراتی ہوئی
جس دن مجھے موت آئے
اس دن سارے گھونسلوں میں
سارے پرندوں کے بچوں کے پر نکل آئیں
ساری سرگوشیاں جلترنگ لگیں
اور ساری سسکیاں نقرئی زمزمے بن جائیں
جس دن مجھے موت آئے
موت میری اک شرط مان کرآئے
پہلے جیتے جی مجھ سے ملاقات کرے
مرے گھر آنگن میں میرے ساتھ کھیلے
جینے کا مطلب جانے
پھر اپنی من مانی کرے
جس دن مجھے موت آئے
اس دن سورج غروب ہونا بھول جائے
کہ روشنی کو میرے ساتھ دفن نہیں ہونا چاہیئے
Tuesday, December 1, 2009
Prose ... written by Raushni
بکرا۔۔۔۔عید
نومبر آخری ہفتہ چل رہا تھا۔۔۔ بقرعید قریب تھی۔۔۔ ہر گھر میں بکرا بکرا ہورہی تھی۔۔۔ ناصر صاحب بھی اسی چکی میں پس رہے تھے آج کل۔۔۔۔ کہلاتے سیٹھ تھے لیکن ایک گن سیٹھوں والا نہیں تھا ان میں۔۔۔ بلا کے کنجوس تھے اور اپنی کنجوسی کو اپنی کفایت شعاری گردانتے تھے۔۔۔ بچوں کے لیےٹافیاں، مٹھائی کھلونےتک نہ لاتے تھے کہ عادتیں خراب ہوتی ہیں۔۔۔۔ ہاں کبھی کبھار حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر موسمی پھل ضرور لے آتے تھے۔۔۔ ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی عید پر قربانی لینے کا حوصلہ نہیں ہورہا تھا حالانکہ روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی انھیں۔۔
لیکن اس بار تو گھر والے ، باہر والے کفر توڑنے پر آمادہ تھے۔۔۔
دکان پر جاتے تو بکرا۔۔۔ گھر آتے تو بکرا۔۔۔۔ ہر سال ٹالتے ٹالتے سارے بہانے ختم کرچکے تھے۔۔ اس بار بیوی اور بچوں کے ساتھ ساتھ ماں کا اصرار بھی انھیں پریشان کیے جارہا تھا۔۔۔ پھر دوست یار سب پوچھنے لگے تھے۔۔۔
۔۔۔۔ ابا بکرا۔۔۔ آئے ہائے ابا ہوں بکرا تو نہیں ہوں میں۔۔۔ منےکے یاد دلانے پر بھنا کر بولے۔۔۔
اے میاں ناصر اس بار تو کہے دیتی ہوں کہ بکرا لے ہی آؤ ۔۔ اللہ بخشے تمھارے ابا مرحوم سال پہلے سے قربانی کا انتظام کرلیا کرتے تھے۔۔۔ اماں مغرب کی نماز پڑھ کے فارغ ہوئی تھیں ، وہیں جائے نماز پر بیٹھے بیٹھے گویا ہوئیں۔۔۔
ہاں ہاں اماں اب کی بار تو بکرا آئے گا۔۔۔۔ناصر میاں نے یوں یقین دلایا جیسے بکرا جہیز میں ملنے والا ہے۔۔۔
یوں کہہ کر ناصر میاں باورچی خانے کی طرف لپکے جیسے لوگ طویل انتظار کے بعد بس کی جانب بھاگتے ہیں۔۔۔ باورچی خانے میں پہنچے تو راشدہ بیگم بڑی تندہی کے ساتھ کھانا پکانے میں مشغول تھیں، میاں کو دیکھ کر بڑٰی محبت کے ساتھ کھانا نکالنے لگیں۔۔۔ ناصر میاں کو تو گمان ہونے لگا کہ جیسے وہ مہمان آئے ہیں۔۔۔ بیوی کا التفات ماں کی تلخ باتیں بھلا رہا تھا۔۔۔ راشدہ بیگم نے کھانا لاکر سامنے رکھا تو ناصر میاں نے بڑی خوشدلی سے پوچھا۔۔۔
خیریت ہے بیگم؟؟ آج مزاج بہت اچھا ہے؟؟؟
جی کیوں نہ ہو؟؟؟ میرے بڑے بھیا نے گائے خریدی ہے۔ کہہ رہے تھے اس بار گوشت کی کمی نہیں ہوگی میری بہن کو۔۔۔ پر میں نے بھی آپ کی طرف سے کہہ دیا کہ اس بار ہم بھی گائے کی قربانی دیں گے۔۔۔ تو آپ کب لارہے ہیں گائے؟؟
بڑی معصومیت سے سوال کیا گیا۔۔۔
گائے؟؟ نہیں نہیں ہم تو بکرا لائیں گے۔۔۔ ناصر میاں بڑے سٹپٹائے۔۔۔
گائے کی کیا ضرورت ہے؟؟
بکرا تو گھر میں پورا نہیں آئے گا۔۔۔ محلے میں کیا بانٹیں گے؟؟؟
راشدہ بیگم تنک کر بولیں۔۔۔
اچھا اچھا ٹھیک ہے دیکھتے ہیں کہ کیا کریں۔۔۔۔ ناصر میاں گھبراکر بولے۔۔
کیوں کہ گرج چمک تو ٹھیک تھی اگر موسلا دھار بارش شروع ہوجاتی تو بہت مشکل ہوجاتی۔۔۔
کہنے کو ناصر میاں نے کہ تو دیا پر اب مشکل میں پڑگئے کیوں کہ ماں کو تو ٹالا جاسکتا تھا پر بیوی ۔۔۔۔۔ خدا کی پناہ۔۔ اتنی ہمت کہاں سے لاتے۔۔۔
اٹھنے میں بھلائی جانتے ہوئے ٹی وی کے آگے آکر بیٹھ گئے۔۔۔۔
قربانی کی کھالیں ۔۔۔ ایدھی ویلفیئر سینٹر میں جمع کروائیں۔۔۔ بار بار اشتہار چلنے پر ناصر میاں کو کوفت ہونے لگی۔۔۔۔۔ ابو ہم قربانی کی کھال ایدھی والوں کو ہی دیں گے۔۔۔ ہے نا؟ سات سالہ گڈو نے بڑے لاڈ سے کہا۔۔۔
اوہو اب جان بھی چھوڑو۔۔۔ تنگ آکر کہنا چاہا لیکن اماں اور راشدہ بیگم بھی آکر بیٹھ گئی تھیں سو کچھ نہ بول سکے۔۔۔
لگتا ہے اب کی دفعہ تو قربانی کا جانور خریدنا ہی پڑے گا۔۔۔ناشتہ کرتے ہوئے ناصر میاں بڑبڑائے۔۔۔ ہاں ہاں کب چلیں؟؟ میں تو کہتی ہوں سب گھر والے چلتے ہیں آج۔۔۔۔ راشدہ بیگم نے جوش میں کہا۔۔۔
ہیں بھلا سب کو جانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم خود ہی لے آئیں گے۔۔۔ ناصر میاں نئے خرچے سے گھبرا کر بولے اور جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔
دکان پر آکر خاصے مصروف ہونے کے باوجود بینک سے پیسے لانا نہ بھولے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر آکر دیکھا تو اماں کلف لگا سفید چکن کا جوڑا پہن کر صحن میں بیٹھی تھیں۔۔ اماں خیریت کہیں جانا ہے آپ کو؟؟ میاں ناصر نے بڑی فرمانبرداری سے پوچھا۔۔
آئے ہائے۔۔۔ تم بھول بھی گئے؟؟ اماں نے ناگواری سے دیکھا۔۔۔
اسی لمحے راشدہ بیگم زری کا بھاری بھرکم جوڑا زیب تن کیے باہر کو آئیں۔۔۔۔ تو میاں ناصر مزید پریشان ہوگئے۔۔۔ بچے الگ نئے کپڑے پہن کر پھر رہے تھے۔۔۔
کوئی مجھے بھی تو بتائے کہ کہاں کی تیاری ہے؟؟جھنجھلا کر پوچھے گئے اس سوال کا جواب ملا کہ ہم سب قربانی کا بکرا خریدنے جارہے ہیں۔۔۔
اماں آپ لوگوں کو جانے کی کیا ضرورت ہے؟ میں خود ہی لے آتا ہوں۔۔۔
کیوں؟؟؟ ہم کیوں نہ جائیں بھلا؟؟ اتنی بڑی خوشی ہے۔۔۔
اچھا چلیں پر اتنی تیاری کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ ناصر میاں اب تک حیران تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ گاڑی پر لدے پھندے تمام لوگ یوں لگ رہے ھے جیسے داماد اور بیٹی کو لینے جارہے ہیں۔۔۔۔۔ اللہ اللہ کرکے بکرا منڈی پہنچے تو بلا کا رش تھا۔۔
تمام لوگ نیچے اترے تو بکرا منڈی میں ایک ہلچل مچ گئی۔۔ لوگ بکروں سے زیادہ سجے سنورے لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
اب پہلے والے ریوڑ پر پہنچے ہی تھے کہ اماں نے بکروں کے منہ پکڑ پکڑ کر دانت چیک کرنے شروع کردیے، دانتوں کے بعد کانوں کی صفائی چیک کی گئی۔۔ پھر دم، کھال کی نرمی، سینگ وغیرہ۔۔۔
اوہو ماں جی چھوڑیں بے چارے گھبرا جائیں گے۔۔۔۔ ناصر میاں نے دکان دار کی خوفناک نظروں سے ڈر کر کہا۔۔۔
ارے دیکھ کر ہی لیتے ہیں سارے۔۔۔ دیکھنے سے کیا گوشت کم ہوجائے گا؟؟اماں نے غصے سے گھورا۔۔۔
اچھا تو بھائی اس بکرے کا کیا لوگے۔؟؟؟ ایک بکرا جو سب کی نظروں کو بھایا تھا ، کے بارے میں پوچھا۔۔۔
۲۰،۰۰۰ روپے نقد۔۔۔ لوں گا بھائی صاحب۔۔۔
ہیں؟؟؟؟؟؟ کیا کہا؟ؕ؟؟؟
بیس ہزار روپے؟؟ ارے ہٹو بیس ہزار کے تو تم بھی نہیں ہو۔۔۔ناصر میاں چمک کر بولے۔۔ جیب میں جتنے پیسے ہیں سب کے سب تمھیں دے جاؤں کیا؟
اماں جی پورا بازار پھر لیں کہیں سے ایسا بکرا مل جائے تو مفت دے دوں گا۔۔۔ دکان دار کا رخ اماں اور راشدہ بیگم کی طرف ہوگیا۔۔۔
چل بیٹا دے دے ۔۔۔اماں پچکار کر بولیں۔۔۔
نہ اماں نہ۔۔ دفع کیجیے
۔۔۔ ساری زندگی لے کر بیٹھے رہو توبھی کوئی لینے نہیں آئے گا۔۔ ناصر میاں نے جیب پر ہاتھ رکھ کر خالص رشتہ کرانے والیوں کی طرح بددعا دی۔۔۔ اور آگے چل پڑے۔۔۔
آگے چل کر کئی دکانوں سے بکرے پسند کیے گئے۔۔۔ لیکن قیمت پر آکر ناصر میاں بپھر جاتے۔۔۔
نہ اماں یہ ایسے ہی کہتے ہیں۔۔۔ تھوڑا آگے جاؤ تو پیچھے سے آواز دے کر بلا لیتے ہیں۔۔۔
ابھی تک تو کسی نے آواز نہیں دی۔۔۔ راشدہ بیگم بری طرح تپ کر بولیں۔۔۔
میرے بھیا نے بھی تو ۳۵۰۰۰ روپے کی گائے خریدی ہے نا۔۔۔
ایسا ایمان ہو ہر کسی کا۔۔۔
اے بہو میرا بیٹا بھی کوئی ایسا گیا گزرا نہیں ہے۔۔۔ نکالو ناصر میاں بیس ہزار۔۔۔ ہم وہی بکرا خریدیں گے۔۔۔
اب ماں اور بیوی کی ٹھن گئی تھی۔۔۔ ناصر میاں برے پھنسے۔۔۔
لیکن اماں وہ میں تو کہ رہا تھا کہ۔۔۔
کیا وہ وہ لگا رکھی ہے تو نے؟؟؟ یہ میری ضد ہے۔۔۔ بہو نے مجھے طعنہ دیا ہے۔۔۔
نکال بیس ہزار روپے۔۔۔ نہیں تو میں قیامت تک تجھے نہیں معاف کروں گی۔۔۔ اماں کی آواز خاصی اونچی ہوگئی اور بچے کھچے باقی لوگ بھی متوجہ ہونے لگے تو ناصر میاں کو چارو ناچار پیسے دینے ہی پڑے۔۔۔
اب بکرے والے کے پاس گئے تو اس بکرے کا سودا ہوچکا تھا۔۔ ایک بڑے میاں بکرے کی رسی پکڑے کھڑے تھے۔۔۔ دکاندار انھیں خوبیاں گنوارہا تھا۔۔۔
اے ہٹ پیچھے چھوڑ ہمارا بکرا۔۔۔ اماں نے بڑے میاں پر حملہ کردیا۔۔۔
اوہو۔۔۔ کیا ہوا خاتون؟؟ یہ بکرا چوری کا ہے کیا؟ بڑے میاں گھبرا کر بولے۔۔۔
تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟؟ ابھی پولیس کو بلاتا ہوں میں۔۔۔ چوری کا مال بیچتے ہو؟؟؟ بڑے میاں بھی ہتھے سے اکھڑ گئے۔۔۔
بکرے کا مالک تو بے چارہ پریشان ہوگیا۔۔۔۔ نہیں نہیں صاحب یہ تو پہلے دیکھ کر گئے تھے بس۔۔۔
چوری کا کیوں ہم نے یہ بکرا خریدا ہے۔۔۔ پورے بائیس ہزار کا۔۔۔اے لے پکڑ پیسے۔۔ ہمارا بکرا کسی اور کو دیتے ہوئے شرم نہ آئی تجھے؟؟
اماں نے دکاندار کو لتاڑا۔۔۔
ہم توذرا کی ذرا آگے ہواخوری کرنے گئے تھےکہ تو نے ہمارے بکرے کا مول بھی لگادیا۔۔۔
وہ بے چارہ پریشان ہوگیا۔۔۔
اچھا اماں جی آپ لے جائیں پر الزام تو نہ لگائیں۔۔۔
خیر جیسے تیسے معاملہ رفع دفع ہوا۔۔۔
بکرے کی قیمت پکڑا کر واپسی کی سوچنے لگے کیونکہ بکرا خاصا صحت مند تھا اور گاڑی چھوٹی۔۔
بھائی صاحب یہ لشکر کیوں لائے ہو؟؟ گھر والوں کو اعتبار نہیں تھا؟؟
کسی منچلے نے آواز کسی۔۔۔
ارے بچوں کو میری گود میں بٹھا دینا۔۔۔اماں چلائیں۔۔۔
ہاں بچے۔۔۔ ارے بچے کہاں گئے؟؟؟
ہائے میں مرجاؤں بچوں کو کہاں چھوڑ آئے۔۔۔ اماں نے ساتھ کھڑے کسی شریف آدمی کو ناصر میاں کے دھیان میں دو ہتڑ مارے۔۔۔ بےچارہ گھبرا کر پیچھے ہٹا۔۔۔
ارے راشدہ۔۔۔ چل میرے ساتھ۔۔۔ہائے ہائے میری قسمت۔۔۔
لوگ کیا کہیں گے ؟؟؟ بکرا خریدنے گئے تھے سارے بچے گنوا کر آگئے۔۔۔
ہائے کچھ کرو کہیں ڈھونڈو میرے بچوں کو۔۔۔
اماں کے واویلے سن کر اردگرد کے تمام لوگ متحرک ہوگئے، کوئی کپڑوں کارنگ پوچھنے لگا کوئی بچوں کے نام اور عمر پوچھ رہاتھا۔۔۔
ناصر میاں کی کیفیت عجیب تھی ایک ہاتھ میں بکرا تھامے دوسرے ہاتھ سے بھیڑ ہٹاتے ہوئے ہر کسی سے بچوں کا پوچھتے پھر رہے تھے۔۔۔
ادھر اماں کے واویلے ۔۔۔ راشدہ کی دھاڑیں۔۔۔۔
اچھا خاصا رش لگ گیا۔۔۔
لوگ سمجھے کوئی مرگیا ہے شاید۔۔۔
جسے دیکھو تاسف بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
پوری بکرا منڈی میں بچوں کو ڈھونڈا جارہا تھا۔۔۔
اتنے میں ناصر میاں بکرا ہاتھ میں لیے پھر آگئے۔۔۔ کسی نے کہا رپورٹ درج کراؤ۔۔۔ پولیس کو فون کیا گیا۔۔۔
پولیس بھی پہنچ گئی۔۔۔
اماں نے نے تھانیدار کو دیکھتے ہی پھر سے رونا شروع کردیا۔۔۔
ہائے میرے بچے۔۔۔۔۔
تھانیدار اتنی دلگیر صورتحال دیکھ کر آبدیدہ ہوگیا۔۔۔
اماں جی حوصلہ کریں۔۔۔
مل جائیں گے۔۔۔ زیادہ دور نہیں گیا ہوگا ابھی۔۔۔
اوئے پوری منڈی میں چکر لگا ذرا۔۔۔
اماں جی کس نے کہا تھا آپ کو کہ بچوں کو ساتھ لے کر آئیں بھلا؟؟؟
اے تو کیا بچوں کو گھر میں بند کرکے آتے؟؟ ننھی ننھی جانوں پر اتنا ظلم کریں؟؟اماں اپنا واویلا بھول کر کسی کے گلے پڑگئیں۔۔۔
اچھا بہن رپورٹ لکھوائیں۔۔۔
بچے کتنے ہیں ؟؟ تھانیدار نے لکھنا شروع کیا۔۔۔
بھائی تین ہیں۔۔۔
اچھا کیا عمر ہے تینوں کی۔۔۔
ایک سات سال کا ہے دوسرا پانچ سال کا اور تیسرا یہ میری گود میں ہے۔۔۔راشدہ نے دوپٹے سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے بتایا۔۔۔
اوہو بہن جی جو بچے گم شدہ ہیں ان کا پوچھ رہا ہوں۔۔۔پولیس والا جھنجھلا گکر بولا۔۔۔
اچھا کپڑے کس رنگ کے پہنے ہین انھوں نے؟؟
بڑے والے نے خاکی رنک کی پینٹ کے ساتھ نیلی قمیض پہنی ہے۔۔۔
اور چھوٹے نے کدو رنگ کا ریڈی میڈ۔۔۔۔
آئے ہائے راشدہ تونے بچوں کو سویٹر نہیں پہنائے تھے کیا؟؟
کتنی بار کہا ہے اپنی عقل استعمال کیا کر۔۔۔ ہائے بےچارے سردی میں سن ہورہے ہوں گے۔۔۔
اچھا بہن جی کوئی نشانی وغیرہ تھانیدار نے استفسار جاری رکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
نشانی؟؟ کونسی نشانی؟؟ شرم نہیں آتی شادی شدہ عورت سے نشانی مانگ رہے ہو؟؟ تیرے گھر میں مائیں بہنیں نہیں ہیں کیا؟؟؟
پوری عقل کی راشدہ بیگم تو ہتھے سے اکھڑ گئیں۔۔۔
اوہو بہن جی میرا مطلب ہے کہ بچوں کی کوئی نشانی۔۔۔ گلے میں کوئی چین ؟؟ جیسے ادھر گاڑی میں یہ بچوں نے پہنی ہوئی ہیں؟؟
کدھر ؟؟؟
ہائے یہی تو ہیں میرے بچے۔۔۔۔
ہائے اماں میرے پھول جیسے بچے۔۔۔
مل گئے۔۔۔ ارے کوئی ریحان کے ابا کو بلائے۔۔۔
انھیں بتائے کوئی کہ ہمارے بچے مل گئے۔۔۔
کم بخت ایسی گہری نیند سوئے ہوئے ہیں۔۔۔ ہم نے گاڑی میں کیوں نہ دیکھ لیا پہلے۔۔۔
اتنے میں ایک طرف سے شور اٹھا اور ایک بکرا آگے آگے بھاگتا ہوا آیا پیچے رسی پکڑے ناصر میاں گھسٹتے آرہے تھے۔۔۔
ارے بھائی پکڑو پکڑو۔۔۔۔
بکرا صبح سے بھوکا تھا شاید۔۔۔ کوئی چارہ لے کر جارہا تھا کہ بکرے نے دوڑ لگادی۔۔۔ ناصر میاں بھی بچوں کو بھول کر پوری منڈی میں گھسٹتے رہے لیکن رسی نہیں چھوڑی۔۔۔
جیسے تیسے لوگوں پکڑ دھکڑ کر قابو کیا۔۔۔۔
اب منظر کچھ ایسا تھا کچھ لوگ گاڑی میں جگہ بنارہے تھے، باقی بکرے کو پکڑ کرکھڑے تھے۔۔۔
سب لوگ بیٹھ گئے تو بکرے کو ڈگی میں باندھ کر بٹھایا گیا۔۔۔
یوں یہ بکرا بردار عظیم لشکر بکرا منڈی سے گھر کی طرف رواں دواں ہو۔۔۔اماں خوش تھیں کہ ناصر میاں کی کنجوسی تو ختم ہوئی۔۔۔
راشدہ بیگم بچوں کو چھپائے بکرے کی آمد پر خوش تھیں۔۔۔
ناصر میاں کے حواس بھی بحال ہوچکے تھے۔۔۔۔۔
قطعہ
وہ شخص جسے میرا ہونا بھی نہیں ہے
یہ عشق و محبت کی روایت بھی عجب ہے
پانا بھی نہیں ہے اسے کھونا بھی نہیں ہے
Thursday, November 26, 2009
جانے کیوں لوگ میرے نام سے جل جاتے ہیں۔۔۔۔۔
ہم تو چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گم نام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی نہیں شیوہ ء اربابِ وفا
جن کو جلنا ہو بڑے آرام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے تیرا نام میرے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ میرے نام سے جل جاتےہیں
متفرق اشعار۔۔۔۔
دل تو چاہتا ہے جہاں تم ہو وہاں تک دیکھوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت میں سر کو جھکا دینا کوئی مشکل نہیں فراز
روشن سورج بھی چاند کی خاطر ، ڈوب جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے میری چپ نے رلا دیا۔۔۔ جسے گفتگو میں کمال تھا۔۔۔۔۔
جسے جانتا تھا میں زندگی وہ صرف وہم و خیال تھا
کہاں جاو گے مجھے چھوڑ کر میں پوچھ پوچھ کر تھک گیا
وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا وہ تو خود سراپا سوال تھا
میری بات کیسے وہ مانتا، میرے درد کیسے وہ جانتا
وہ تو خود فنا کے سفر پہ تھا، اسے روکنا بھی محال تھا
وہ ملا تو صدیوں بعد بھی میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا ،جسے گفتگو میں کمال تھا
بنا کے تجھ کو سمندر میں پیاس ہوجاوں۔۔
بناکے تجھ کو سمندر میں پیاس ہوجاوں
جو دے دے مجھ کو اجازت تو میری جان مجھے
بناکے چاند محبت کے آسماں کا تجھے
کرن کرن میں تیرے آس پاس ہو جاوں
بناکے تجھ کو سمندر میں پیاس ہوجاوں
ہوئی قبول جو بن مانگے وہ دعا تو ہے
جو ٹوٹ کے بھی نہ ٹوٹے وہ سلسلہ تو ہے
رہے ادھوری نہ جو میں وہ آس ہوجاوں
بناکے تجھ کو سمندر میں پیاس ہو جاوں
میں یوں ملوں تجھے تیرا لباس ہو جاوں
بنا کے تجھ کو سمندر میں پیاس ہو جاوں
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کرسکتا تھا چھوسکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
آج اس نے درد بھی اپنے علحدہ کرلیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا
شام کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد
میں نے ایسے ہی گناہ تیری جدائی میں کیے
جیسے طوفاں میں کوئی چھوڑ دے گھر شام کے بعد
لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج
کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بعد
اتنے چپ چاپ کہ رستے بھی رہیں لاعلم
چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد
Friday, November 20, 2009
تجھے عشق ہو خدا کرے۔۔۔۔
تجھے عشق ہو خدا کرے
کوئی تجھ کو اس سے جدا کرے
تیرے ہونٹ ہنسنا بھول جائیں
تیری آنکھ پُر نم رہا کرے
اسے دیکھ کر تو رک پڑے
وہ نظر جھکا کر چلا کرے
تو اس کی باتیں کیا کرے
تو اس کی باتیں سنا کرے
تجھے ہجر کی وہ جھڑی لگے
تو ملن کی ہر پل دعا کرے
تیرے خواب بکھریں ٹوٹ کر
تو کرچی کرچی چنا کرے
تو نگر نگر پھرا کرے
تو گلی گلی صدا کرے
پھر میں کہوں کہ
عشق ڈھونگ ہے۔۔۔۔۔
تو نہیں نہیں کہا کرے
Monday, November 16, 2009
شہر کے دکاں دارو۔۔۔ تم نہ جان پاؤ گے۔۔۔
کاربارِ الفت میں سود کیا ، زیاں کیا ہے؟؟
تم نہ جان پاؤگے
دل کے دام کتنے ہیں؟؟
خواب کتنے مہنگے ہیں
اور نقد جاں کیا ہے؟
تم نہ جان پاؤ گے
کوئی کیسے ملتا ہے
پھول کیسے کھلتا ہے
آنکھ کیسے جھکتی ہے
سانس کیسے رکتی ہے
کیسے راہیں کھلتی ہیں
کیسے بات چلتی ہے
شوق کی زباں کیا ہے
تم نہ جان پاؤ گے
وصل کا سکوں کیا ہے
ہجر کا جنوں کیا ہے
حسن کا فسوں کیا ہے
عشق کا دروں کیا ہے
تم مریض دانائی
مصلحت کے شیدائی
راہ گم یہاں کیا ہے
تم نہ جان پاؤ گے
زخم کیسے پھلتے ہیں
داغ کیسے جلتے ہیں
درد کیسے ہوتا ہے
کوئی کیسے روتا ہے
اشک کیا ہیں نالے کیا
دشت کیا ہیں چالیں کیا
آہ کیا فغاں کیا ہے
تم نہ جان پاؤ گے
جانتا ہوں میں تم کو
ذوقِ شاعری بھی ہے
شخصیت سجانے میں
اک ماہری بھی ہے
صرف حرف چنتے ہو
فقط لفظ سنتے ہو
ان کے درمیاں کیا ہے
تم نہ جان پاؤ گے
ہمیں تم بھول ہی جانا۔۔۔۔۔۔
کہیں دنیا میں کھوجائیں
بتاؤ کیا کرو گے تم؟؟
ہمیں ڈھونڈو گے یا
پھر بھول جاؤ گے؟
ہمیں آواز دو گے
یا کسی گزری کہانی میں
ہمارا نام لکھ دو گے؟؟
چلو ایسا ہی کر لینا
تم خود بھی بدل جانا
ہمیں تم بھول ہی جانا
مگر اتنی گذارش ہے
ہمارا ذکر جب آئے
تو تھوڑا مسکرا دینا
خوشی کا ہو کہ غم کا ہو
بس اک آنسو گرا دینا
ایک بھی سانس گناہ گار نہ ہونے دیتے
تیری پلکوں کو خبردار نہ ہونے دیتے
ہم سبھی رنگ چراتے تیرے چہرے سے مگر
بے اثر ہم لب و رخسار نہ ہونے دیتے
تجھ سے ملتے تیری سانسوں سے ملا کر سانسیں
ایک بھی سانس گناہ گار نہ ہونے دیتے
ہم تجھے دکھ بھی سناتے تو لطیفوں کی طرح
ہم طبیعت تیری بے زار نہ ہونے دیتے
ہم گرہیں کھولتے سبھی تیری شناسائی کی
تجھ کو اس طرح پر اسرار نہ ہونے دیتے
Friday, October 30, 2009
بھلے دنوں کی بات ہے۔۔۔۔۔۔
بھلے دنوں کی بات ہے
بھلی سی اک شکل تھی
نہ یہ کہ حسن تام ہو
نہ دیکھنے میں عام سی
نہ یہ کہ وہ چلے تو
کہکشاں سی رہ گزر لگے
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر
بھلا بھلا سفر لگے
کوئی بھی رت ہو، اس کی چھب
فضا کا رنگ روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی
وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدتوں جدا رہے
نہ ساتھ صبح و شام ہو
نہ رشہء وفا پہ ضد
نہ یہ کہ اذن عام ہو
نہ ایسی خوش لباسیاں
کہ سادگی گلہ کرے
نہ اتنی بے تکلفی
کہ آئینہ حیا کرے
نہ اختلاط میں وہ رنگ
کہ بدمزہ ہوں خواہشیں
نہ اس قدر سپردگی
کہ زچ کریں نوازشیں
نہ عاشقی جنون کی
کہ زندگی عذاب ہو
نہ اس قدر کٹھور پن
کہ دوستی خراب ہو
کبھی تو بات بھی کافی
کبھی سکوت بھی سخن
کبھی تو کشت زعفران
کبھی اداسیوں کا بن
سنا ہے ایک عمر ہے
معاملات دل کی بھی
وصال جاں فزا تو کیا
فراق جاں گسل کی بھی
سو اک روز کیا ہوا
وفا پہ بحث چھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں
وہ میری ضد سے چڑ گئی
میں عشق کا اسیر تھا
وہ عشق کو قفس کہے
کہ عمر بھر کے ساتھ کو
وہ بد تر از ہوس کہے
شجروہجرنہیں کہ ہم
ہمیشہ پابہ گِل رہیں
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں
گلے میں مستقل رہیں
محبتوں کی وسعتیں
ہمارے دست و پا میں ہیں
بس ایک در سے نسبتیں
سگِ باوفا میں ہیں
میں کوئی پینٹنگ نہیں
کہ اک فریم میں رہوں
وہی جو من کا میت ہو
اسی کے پریم میں رہوں
تمہاری سوچ جو بھی ہو
میں اس مزاج کی نہیں
مجھے وفا سے بیر ہے
یہ بات آج کی نہیں
نہ اس کو مجھ پہ مان تھا
نہ مجھ کو اس پہ زعم ہی
جو عہد ہی کوئی نہ ہو
تو کیا غم شکستگی
سو، اپنا اپنا راستہ
ہنسی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی
میں اپنی راہ چل دیا
بھلی سی ایک شکل تھی
بھلی سی اس کی دوستی
اب اس کی یاد رات دن
نہیں ۔ ۔ ۔ مگر کبھی کبھی
Monday, October 26, 2009
اجنبی مسافر
اجنبی مسافر ایک
مجھ سے پوچھ بیٹھا ہے
راستہ بتادوگے؟
اجنبی سی راہوں کے
اجنبی مسافر سن
راستہ کوئی بھی ہو
واسطہ کوئی بھی ہو
منزلیں نہیں ملتیں
منزلیں جو مل جائیں
زندگی کو جینے کی آرزو نہیں رہتی
جستجوُ نہیں رہتی
Tuesday, October 20, 2009
حسن کُوزہ گر
حسن کوزہ گر
جہاں زاد! نیچے گلی میں تیرے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطار یوسف کی
دکان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی تھی
میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ وار پھرتا رہا ہوں
جہاں زاد! نوسال پھرتا رہا ہوں
یہ وہ دور تھا جس میں ، میں نے
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا۔۔۔۔۔
وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے
گل و روغن کی مخلوق بے جاں
وہ سرگوشیوں میں یہ کہتے
حسن کوزہ گر اب کہاں ہے؟
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
خداوند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں!
جہاں زاد نو سال کا دور، یوں مجھ پر گزرا
کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے
تغاروں میں مٹی
کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں
سنگ بستہ پڑی تھی
صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہارفن کے سہارے
شکستہ پڑے تھے
میں خود حسن کوزہ گر، پا بہ گل خاک بر سر برہنہ
سر چاک ژولیدہ مو، سر بزانو
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
گل و لا سےخوابوں کے سیال کوزے بناتا رہا تھا
جہاں زاد! نو سال پہلے
تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ میں نے حسن کوزہ گر نے
تری قاف آنکھوں کی سی افق تاب آنکھوں میں
دیکھی ہے وہ تابناکی
کہ جس سے مرے جسم و جاں،
ابرو مہتاب کا رہگزر بن گئے تھے
جہاں زاد! بغداد کی خواب گوں رات
وہ رود دجلہ کا ساحل
وہ کشتی و ملاح کی بند آنکھیں
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
ایک ہی رات وہ کہر با تھی
کہ جس سے ابھی تک ہے پیوست اس کا وجود
اس کی جاں کا پیکر
مگر ایک ہی رات کا ذوق ، دریا کی وہ لہر نکلا
حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا ابھرا نہیں ہے
جہاں زاد اس دور میں ہر روز، ہر روز
وہ سوختہ بخت آکر
مجھے دیکھتی چاک پر پاب گل سر بزانو
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی
(وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا)
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی
حسن کوزہ گر ہوش میں آ
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچوں کے تنور کیوں کربھریں گے
حسن اے محبت کے مارے
محبت امیروں کی بازی
حسن اپنے دیوار و در پر نظر کر
مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
کسی ڈوبتے ہوئے شخص کو زیرگرداب کوئی پکارے
وہ اشکوں کے انبار پھولوں تھے ہاں
مگر میں حسن کوزہ گر شہر اوہام کے
اُن خرابوں کا مجذوب تھا
جن میں کوئی صدا کوئی جنبش
کسی مرغ پراں کا سایہ
کسی زندگی کا نشاں تک نہ تھا
ترے در کے آگے کھڑا ہوں
سرو مو پریشاں
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاہیں
مجھے آج پھر جھانکتی ہیں
زمانہ جہاں زاد وہ چاک ہے جس پہ مینا جام و سبو
اور فانوس و گلداں کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
میں انساں ہوں لیکن
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے
حسن کوزہ گر آج اک تودہء خاک ہے
جس میں نم کا اثر تک نہیں ہے
جہاں زاد! بازار میں صبح عطار یوسف
کی دکان پر تیری آنکیں
پھر اک بار کہہ گئی ہیں
ان آنکھوں کی تابندہ شوخی سے اٹھی ہے
پھر تودہ ء خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
یہی شاید اس خاک کو گل بنادے
تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
تو چاہے تو بن جاؤں میں پھر سے وہی کوزہ گر
جس کے کوزے تھے
ہر کاخ و کو اور ہر شہر و قریہ کی نازش
تھے جن سے امیروگدا کے مساکن درخشاں
تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں
اُن اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہار فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گل و لا سے، اس رنگ روغن سے
پھر وہ شرارے نکالوں
کہ جن سے دلوں کے خرابے ہوں روشن