Thursday, December 23, 2010

Recieved from Huma...

اسے کہنا بچھڑنے سے محبت تو نہیں مرتی
بچھڑ جانا محبت کی صداقت کی علامت ہے
محبت ایک فطرت ہے
ہاں فطرت کب بدلتی ہے
سو جب ہم دور ہوجائیں
نئے رستوں میں کھو جائیں
تو یہ مت سوچ لینا تم
محبت مرگئی ہوگی
نہیں! ایسا نہیں ہوگا
مرے بارے میں سنکر جب تمہاری آنکھ بھر آئے
چھلک کر ایک آنسو پلک پر جو اتر آئے

تو بس اتنا سمجھ لینا
جو میرے نام سے اتنی ترے دل کو عقیدت ہے
ترے دل میں بچھڑ کر بھی ابھی میری محبت ہے

محبت!!! جو اجڑ کر بھی سدا آباد رہتی ہے
محبت ہو کسی سے تو ہمیشہ یاد رہتی ہے
محبت وقت کے بےرحم طوفاں سے نہیں ڈرتی
اُسے کہنا بچھڑنے سے محبت تو نہیں مرتی

بڑی الجھنوں میں ہوں۔۔۔ فراز احمد فراز

تیرے قریب آکے بڑی الجھنوں میں ہوں
میں دوستوں میں ہوں کہ ترے دشمنوں میں ہوں
مجھ سے گریزپا ہے تو ہر راستہ بدل
میں جو سنگ راہ ہوں تو سبھی راستوں میں ہوں

Monday, December 20, 2010

ہمیں کیا برا تھا مرنا۔۔اگر ایک بار ہوتا۔۔۔۔

مرے دل مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یار نامہ بر کا
ہراک اجنبی سے پوچھیں
جوپتا تھا اپنے گھر کا
سرکوئے ناشنائیاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمھیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شب غم بری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جوکوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا
اگرایک بار ہوتا

کھلتا کسی پہ کیوں۔۔۔۔۔

کُھلتا کِسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ
شعروں کےانتخاب نے رُسوا کیا مجھے

Saturday, December 18, 2010

از شبنم شکیل۔۔۔۔

پوچھتے کیا ہو کیوں کر ہم پہنچے ہیں ایسے حالوں میں
ہم جیسے بھی پڑ جاتے ہیں دنیا کے جنجالوں میں

جس قصے کو ختم کیا جاسکتا تھا کچھ لمحوں میں
سوچ بچار ہی کرپائے ہیں اس پر اتنے سالوں میں

خوابوں سے محروم رہا کرتے ہیں دنیا جیت کے بھی
ایک کمی اکثر یہ رہ جاتی ہے جاگنے والوں میں

روزازل سے طے یہ ہواتھا کٹ جائے بس ایسے ہی
میری عمر جواب دہی میں، تیری عمر سوالوں میں

اپناآپ مٹاڈالا ہے اس بیکار سی خواہش میں
میرا ذکر کتابوں میں ہو، میراذکر رسالوں میں

چہک پرندوں کی ہی لے آتی ہے زیردام انہیں
ایک حوالہ خوش گفتاری بھی تھا میرے حوالوں میں

Recieved from MOMO...:)

ہم ایک کہہ کے سنتے ہیں دوچارگالیاں
اک چھیڑ ہوگئی ہے تیرے پاسباں کے ساتھ

Friday, December 17, 2010

از شبنم شکیل۔۔۔۔۔۔ ڈائری 2010

زمانہ ساز ہوتی جا رہی ہوں
مجھےروکو،سنبھلتی جارہی ہوں
نہتا کردیا ہے اس نے مجھ کو
ہراک سےصلح کرتی جارہی ہوں

From my Diary.

پہاڑوں سے اتر کر وادیوں میں رنگ بھرنا ہے
مجھے رستے کے سارے پتھروں کو ریت کرنا ہے

Wednesday, December 15, 2010

ناصرکاظمی۔۔۔۔۔

ہزاررستےہیں اہل دل کے،بس ایک منزل ہےبوالہوس کی
یہی فرق ہے اس میں ، ہم میں، گزرگئے ہم، ٹھہر گیا وہ

سچائی مرگئی ہے۔۔۔۔۔۔

اندھی بصارتیں ہیں
بہری سماعتیں ہیں
گونگے ہیں لفظ سارے
ہر نقش عارضی ہے
ہرخواب رائیگاں ہے
دھندلے ہیں عکس سارے
شبنم گلاب خوشبو
سب شاعروں کی باتیں
سب جھوٹ سب فسانے
دھوکہ بنی محبت
نہ معتبر وفائیں
ایسی ہوا چلی ہے
سچائی مرگئی ہے

کون کہاں تک چل سکتا ہے؟؟؟؟ شاعر ،زاہد منیر عامر

اپنے گریباں، درداپنے ہیں
اپنے اپنے سپنے ہیں
کچھ لمحوں میں پیاراترکر
اک زنجیر بنا دیتا ہے
من اور تو کی صدیوں کو
کچھ لمحوں میں الجھادیتا ہے
لمحے صدیاں بن نہیں پاتے
رستے الجھےرہ جاتے ہیں
الجھے سلجھے رستوں پر
وعدوں کے پھول کھلا نہیں کرتے
پھول کہاں تک کھل سکتے ہیں
پھول کہاں تک چل سکتے ہیں
رستے تنہا رہ جاتے ہیں
کون کہاں تک چل سکتا ہے

Recieved from..Rabi....

وہ ایک شخص مجھے ساری عمر ترسے گا
نصیب اُس کے کہ اُس نے مجھے گنوانا تھا

بلاعنوان۔۔۔

ایک نقطے نے محرم سے مجرم بنادیا
ہم دعا لکھتے رہے ، وہ دغا پڑھتے رہے

Tuesday, December 7, 2010

ناصرکاظمی۔۔۔۔بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں۔۔۔۔

وہ دلنوازہےلیکن نظرشناس نہیں
مراعلاج مرےچارہ گر کے پاس نہیں

تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
مرےلیےکوئی شایانِ التماس نہیں

ترےجلو میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے
مرےمزاج کو آسودگی بھی راس نہیں

کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے
اب ان دنوں کا تصوربھی مرےپاس نہیں

مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں

Saturday, December 4, 2010

بلاعنوان۔۔۔۔

میرے کمرے میں پڑے ہیں
میری قسمت کے نجوم
ہر طرف بکھرے رسالے
اور کتابوں کا ہجوم
اب جگہ کافی نہیں ہے
میرے رہنے کے لیے
میں نے کتنا پڑھ لیا ہے؟
کچھ نہ کہنے کے لیے

Recieved from Tehseen..:)

اسے کہنا دسمبر آن پہنچا ہے
ہوائیں سرد ہیں وادیاں بھی دھند میں گم ہیں
پہاڑوں نے برف کی شال پھر سے اوڑھ رکھی ہے
سبھی رستے تمہاری یاد میں پُرنم سے لگتے ہیں
جنھیں شرفِ مسافت تھا
وہ سارے کارڈز
وہ پرفیوم
وہ چھوٹی سی ڈائری
وہ ٹیرس
وہ چائے
جو ہم نے ساتھ میں پی تھی
تمہاری یاد لاتے ہیں
تمہیں واپس بلاتے ہیں
اسے کہنا کہ
دیکھو ! یوں ستاؤ نا
دسمبر آن پہنچا ہے
سنو ! تم لوٹ آؤ نا

مجسمہ ساز۔۔۔۔۔۔ ایک کہانی، بڑی پرانی۔۔از منیرالدین احمد

چین کے بادشاہ اکیلے نہ مرتے تھے
ان کے ساتھ مرنا ہوتا تھا
حرم کی رانیوں کو
محل کی لونڈیوں کو
گھربار کی باندیوں کو
شاہی پہرہ داروں کو
فوج کی ایک پوری پلٹن کو
گھوڑوں اورخچروں کو
کتوں اور بلیوں کو
یہ رسم جاری رہی
اس روز تک
جب ایک مجسمہ ساز کو
ایک انوکھی تجویز سوجھی
زندوں کی جگہ
مجسموں کو بادشاہ کی
قبرمیں دفن کرنے کی
بادشاہ کی زندگی میں
سارے مجسمے تیار کیے گئے
ان لوگوں کے
جنھیں وہ اگلے جہاں میں
اپنی معیت میں دیکھنا چاہتا تھا
ایک وسیع و عریض قبر میں
ان کو ایستادہ کردیاگیا
بادشاہ کی موت کے انتظارمیں
اور جب بادشاہ مرا تو
خوشیاں منائی گئیں
ماتم کی بجائے
کیوںکہ رانیوں اور درباریوں
محل کے باسیوں اور
ہزاروں لشکریوں کی جانیں
جو بچ گئی تھیں
نہ بچ سکی تو
صرف مجسمہ ساز کی جان
اس کو بادشاہ کے دائیں ہاتھ پر
زنجیروں سے جکڑ دیا گیا
قبر پر منوں مٹی ڈالنے سے پہلے
اسے اگلے جہاں میں
مجسموں میں روح پھونکنی ہوگی
اور شاید بادشاہ کو
مزید لشکریوں کی ضرورت پڑ جائے

وصیت۔۔۔۔ داغ دہلوی

دن گزارے عمر کے انسان ہنستے بولتے
جان بھی نکلے تو میری جان ہنستے بولتے
آسماں برسوں رلاتا ہے لگا دیتا ہے چپ
دیکھ لیتا ہے اگر اک آن ہنستے بولتے

Tuesday, November 30, 2010

خامہ فرسائی

مزاج ہم سے زیادہ نہ تھا جدا اُس کا
جب اپنے طورتھے یہی تو کیا گلہ اُس کا

وہ تھا اپنے زعم میں، رہا بےخبر مجھ سے
اُسے خبر بھی نہ تھی، میں نہیں رہا اُس کا

Monday, November 29, 2010

بلاعنوان۔۔۔۔

ہجرکی شب میں قید کرے یاصبح وصال میں رکھے
اچھا مولا! تیری مرضی تو جس حال میں رکھے

Sunday, November 28, 2010

آج۔۔۔۔۔۔۔

افسانوں کی دنیا میں سب جھوٹ نہیں ہوتا
دل اور بھی الجھے گا، پڑھیے نہ کتابوں کو

Thursday, November 25, 2010

آئینہ پتھروں میں رہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔از :ڈاکٹر فخرالحق نوری

دل عجب وسوسوں میں رہتا ہے
آئینہ پتھروں میں رہتا ہے
واہمے کے سوا یہ کچھ بھی نہیں
چاند کب پانیوں میں رہتا ہے
میں ترستا ہوں آدمی کے لیے
جانے کن بستیوں میں رہتاہے
کس کی تسبیح کررہے ہیں طیور
کون ان زمزموں میں رہتا ہے
دھڑکنوں کا کچھ اعتبار نہیں
اور وہ دھڑکنوں میں رہتا ہے

Sunday, November 7, 2010

آج کل۔۔۔۔۔

ضبط کہتا ہےخاموشی سےبسرہوجائے
درد کہتا ہے کہ دنیا کو خبر ہو جائے

ہمیں معلوم ہی کب تھا۔۔۔۔۔۔۔۔بہت معصوم تھے ہم بھی۔۔۔

ہمیں اب یاد آتا ہے
بہت معصوم تھے ہم بھی
ہم اک اجنبی کو عمر کی تاریک راہوں میں
سہارا مان بیٹھے تھے
کہ اس کے چاند چہرے کو
ہم اپنے بخت کا روشن ستارا مان بیٹھے تھے
ہمیں معلوم ہی کب تھا
کہ دشت زندگی میں
سہارے چھوٹ جاتے ہیں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
نظر جن پہ ٹھہرتی ہے
وہ تارے ٹوٹ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔

Wednesday, November 3, 2010

بارش۔۔۔۔۔

بادل نے کل رات کو

مجھ کو روتے دیکھا تھا

یہ منظر اس کو اتنا بھایا

کہ

رات سے پانی برس رہا ہے

Monday, November 1, 2010

جواب آنکھوں سے ایسے کمال دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بندگی کی ایسی مثال دیتا ہے
آوارگی کو شریعت میں ڈھال دیتا ہے
وہ خوش کلام ہےاس درجہ بات کرنے میں
کہ حرف حرف کو حسن و جمال دیتا ہے
میں اس کا ساتھ جو مانگوں زندگی بھر کو
بڑے حسین طریقے سے ٹال دیتا ہے
یہ جان کر بھی میرا وہ ہونہیں سکتا
وہ دیکھتا ہے یوں کہ شش وپنج میں ڈال دیتا ہے
سوال جیسے پناہ مانگتے ہوں آنکھوں سے
جواب آنکھوں سے ایسے کمال دیتا ہے

ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی۔۔۔۔۔۔

ذکرِشبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی

میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

وہ مجھ سےبڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا

ورنہ ہرایک سانس قیامت اسے بھی تھی

سنتا تھا دوسروں سے وہ سچی کہانیاں

شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی

ایک شعر۔۔۔۔۔

اس شخص کے پہلو میں سکوں اتنا کیوں ہے
گرجا نہیں ، مندر نہیں، کعبہ بھی نہیں وہ۔۔۔۔۔

Monday, October 25, 2010

یہ دیکھ تیرے ہاتھ میں پتھر بچا نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔

اتنا بھی اپنی ذات سے کوئی جدا نہ ہو
نکلے تری تلاش میں ،اپنا پتا نہ ہو
دیکھو کہ پھر ہواؤں کے تیور بدل گئے
ساحل کی ریت پر کوئی کچھ لکھ رہا نہ ہو
تنہائیاں کچھ ایسے بستی ہیں میرے ساتھ
عکس بھی شجر سے جیسے جدا نہ ہو
نہ کر تو میرے جسم کے زخموں کا یوں حساب
یہ دیکھ تیرے ہاتھ میں پتھر بچا نہ ہو
اپنوں سے بھی ملوں تو یہ خوف سا رہے
چہرے کے پیچھے کوئی چہرہ چھپا نہ ہو

Tuesday, October 12, 2010

سنو!!!!۔

سنو !تم عزم والے ہو
بلا کا ضبط رکھتے ہو
تمھیں کچھ بھی نہیں ہوگا
مگر دیکھو!۔
جسے تم چھوڑے جاتے ہو
اُسے تو ٹھیک سےشاید
بچھڑنا بھی نہیں آتا
سنو! تم عزم والے ہو
اُسے مت چھوڑ کر جاؤ

Monday, October 11, 2010

صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے۔۔۔۔

خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
مجھے اپنی چادر میں یوں ڈھانپ لو
زمیں آسماں کچھ دکھائی نہ دے
خطاوار سمجھے گی دنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے

Saturday, October 9, 2010

آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں۔۔۔۔ شاہکارِ غالب

دائم پڑا ہوا تیرے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ پتھر نہیں ہوں میں
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں

Monday, October 4, 2010

سنو تم کو سناتے ہیں ہم کاروبار کے قصے۔۔۔۔

بہت فرسودہ لگتے ہیں مجھے اب یار کے قصے
گل و گلزار کی باتیں لب و رخسار کے قصے
بھلا عشق و محبت سے کسی کا پیٹ بھرتا ہے؟
سنو! تم کو سناتے ہیں ہم کاروبار کے قصے
میرے احباب کہتے ہیں یہی اک عیب ہے ہم میں
سرِدیوار لکھتے ہیں پسِ دیوار کی باتیں
ہم اکثر اس لیے لوگوں سے جا کر خود نہیں ملتے
وہ بےکار کی باتیں ، وہی بےکار کے قصے

رت جگا۔۔۔۔

سنا ہوگا کہ درد کی اک حد بھی ہوتی ہے
ملو ہم سے کہ ہم اس حد کے اکثر پار جاتے ہیں

زباں سے روٹھ گیا پھرسوال کا موسم۔۔۔۔۔۔

فراق یار کی بارش ملال کا موسم
ہمارے شہر میں اترا کمال کا موسم
وہ اک دعا جو میری نامراد لوٹ آئی تھی
زباں سے روٹھ گیا پھر سوال کا موسم
جو بےیقیں ہوں تو بہاریں اجڑ بھی سکتی ہیں
تو آکے دیکھ لے مرے زوال کا موسم

Monday, September 27, 2010

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند مکروہ ذہن
کثافتوں کو بڑھارہے ہیں
منافقت کو نبھا رہے ہیں
پستہ قد بہروپیے
زیتون کی ٹہنی لیے
اپنی اپنی چھتریوں سے
کبوتروں کو اڑا رہے ہیں
سمجھنے والا سمجھ چکا ہے
کسے تماشا دکھارہے ہیں؟

ایک شعر۔۔۔

ہم دوہری اذیت کے ہیں گرفتار مسافر
کہ پاؤں ہیں شل ، شوقِ سفر بھی نہیں جاتا

Saturday, September 18, 2010

جو آئے تیسرا دانہ یہ ڈوری ٹوٹ جاتی ہے۔۔۔۔

مکمل دو ہی دانوں پر یہ تسبیحِ محبت ہے
جو آئے تیسرا دانہ ، یہ ڈوری ٹوٹ جاتی ہے
مقرر وقت ہوتا ہے محبت کی نمازوں کا
ادا جن کی نکل جائے قضا بھی چھوٹ جاتی ہے
محبت کی نمازوں میں امامت ایک کو سونپو
اسے تکنے اُسے تکنے سے نیت ٹوٹ جاتی ہے
محبت دل کا سجدہ ہے جو ہے توحید پر قائم
نظر کے شرک والوں سے محبت روٹھ جاتی ہے

Thursday, September 16, 2010

روایت۔۔۔۔

کسی کے یوں بچھڑنے پر
کسی کی یاد آنے پر
بہت سے لوگ روتے ہیں
کہ رونا اک روایت ہے
محبت کی علامت ہے
میں ان پرپیچ راہوں پر
غمِ جاناں سے گھبرا کر
روایت توڑ جاتی ہوں
تمھاری یاد آنے پر
میں اکثر مسکراتی ہوں

Friday, August 27, 2010

بچھڑنے سے ذرا پہلے۔۔۔۔۔۔۔

اگر کبھی میری یاد آئے تو
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کے
تمھارے قدموں میں آگرے تو
یہ جان لینا
وہ میرا دل تھا
اگر نہ آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
کہ
تم کسی پہ نگاہ ڈالو
اور
اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
اگر کبھی میری یاد آئے
تو گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشببوؤں میں تمھیں ملوں گی
میں گرد ہوتی مسافتوں تمھیں ملوں گی
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا
کہ
ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی سلگ چکی ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کو خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کے سمندروں میں سفر کروں گی
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رک کے
تم کو صدائیں دوں گی کہ
سمندروں کے سفر پہ نکلو
تو
اُس جزیرے پہ بھی رکنا
اگر کبھی میری یاد آئے تو۔۔۔۔۔

بچھڑنے سے ذرا پہلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ وعدہ تھا کوئی تم سے
کوئی رشتہ نبھانے کا
نہ کوئی اور ہی دل میں تہیہ یا ارادہ تھا
نہ تم اس داستاں کے سرسری کردار تھے کوئی
نہ قصہ اتنا سادہ تھا
تعلق میں جو سمجھی تھی
کہیں اس سے زیادہ تھا

Friday, July 30, 2010

ہنستے ہنستے۔۔۔۔

نہ جانے کب ملے فرصت
اسی لمحے چلے آو
نہ جانےکب ملے فرصت
کہ جب تم بھی نہ مل پاو
کہ جب میں بھی نہ مل پاوں
!!!!
تمھیں شکوے سنانے ہیں
مجھے آنسو بہانے ہیں
تمھیں الزام دینا ہے
مجھے بے دام رہنا ہے
تمھارے نام کی ٹیبل
کسی کیفے کے گوشے میں
ڈنر کے واسطے بُک ہے
مجھے بھی شام کی چائے
کسی کے ساتھ پینا ہے
نئی خوشبو ہے پیرس کی
جو تم کو ساتھ لینا ہے
مجھے بھی ٹائی کا پیکٹ نئی پیکنگ میں لینا ہے
تو کیوں نہ شام سے پہلے کسی لمحے میں مل جائین
خزاں کی دھوپ پھیلی ہے
ہوا بھی تھوڑی گیلی ہے
اداسی کا فسون سا ہے
جنوں میں اک سکوں سا ہے
یہ موسم ہے بچھڑنے کا
اسی رُت میں بچھڑ جاو
ابھی آو
ابھی آو
بچھڑ جاو

Thursday, July 22, 2010

اس نے پوچھے تھے جدائی کے معانی مجھ سے۔۔۔۔

آکے لے جا میری آنکھ کا پانی مجھ سے
کیوں حسد کرتی ہے دریا کی روانی مجھ سے
گوشت ناخن سے الگ کر کے دکھایا
اُس نے پوچھے تھے جدائی کے معانی مجھ سے
تیری خوشبو کی لحد پہ میں بڑی دیر سے کھڑا تھا
روپڑی تھی مل کے رات کی رانی مجھ سے
ختم ہونے لگا جب خوں بھی اشکوں کی طرح
کرگئے خواب بھی میرے نقل مکانی مجھ سے

Thursday, July 1, 2010

لاحاصل

وہ لوگ ہی قدموں سے زمیں چھین رہے ہیں
جو لوگ میرے قد کے برابر نہیں آتے
اک تم کہ تمہارے لیے میں بھی میری جاں بھی
اک میں کہ مجھے تم بھی میسر نہیں آتے
جس شان سے لوٹے ہیں گنواکر دل و جاں ہم
اس طور سے تو ہارے ہوئے لشکر نہیں آتے
کوئی تو خبر لے میرے دشمن جان کی
کئی روز سے مرے صحن میں پتھر نہیں آتے
دل بھی کوئی آسیب کی نگری ہے محسن
جو اس سے نکل جاتے ہیں مڑ کر نہیں آتے

Tuesday, April 13, 2010

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تعلق میں عجب حسن ِ توازن کارفرما ہے
طلب حد سے نہیں بڑھتی ضرورت کم نہیں ہوتی

Thursday, March 25, 2010

کتابیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ازگلزار

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے

بڑی حسرت سے تکتی ہیں

مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں

جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں ، اب اکثر

گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر

بڑی بےچین رہتی ہیں

انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہوگئی ہے

بڑی حسرت سے تکتی ہیں

جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔۔۔

کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے

وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں

جو رشتے وہ سناتی تھیں

وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں

کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے

کئی لفظوں کے معنی گرپڑے ہیں

بنا پتوں کےسوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ

جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے

بہت سی اصطلاحیں ہیں ۔۔۔۔

جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں

گلاسوں نے انہیں متروک کرڈالا

زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا

اب انگلی کلک کرنے سے بس اک

جھپکی گزرتی ہے۔۔۔۔۔

بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر

کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے

کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے

کبھی گودی میں لیتے تھے

کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بناکر

نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے چھوتے تھے جبیں سے

خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی

مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول

کتابیں مانگنے گرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے

ان کا کیا ہوگا

وہ شاید اب نہیں ہوں گے

دیر آمد۔۔۔۔۔گلزار کی شاعری

آٹھ ہی بلئین عمر زمیں کی ہوگی شاید
ایسا ہی اندازہ ہے کچھ سائنس کا
چار اعشاریہ چھ بلین سالوں کی عمر تو بیت چکی ہے
کتنی دیر لگادی تم نے آنے میں
اور اب مل کر
کس دنیا کی دنیاداری سوچ رہی ہو
کس مذہب کی ذات پات کی فکر لگی ہے
آو چلیں اب
تین ہی بلئین سال بچے ہیں

Monday, March 22, 2010

آئینہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از روشنی

منافقت سے بھری یہ دنیا
جس کے رگ و پے میں
خود غرضی اور تصنع کا زہر بھرا ہے
عیاری کے لبادے میں ملبوس
بے چہرہ لوگ
جو کسی جنگلی درندے سے بھی زیادہ
بھیانک ہیں
نرم لہجوں میں ملفوف
اپنائیت کے بناوٹی جذبے۔۔۔۔۔۔۔۔
جو اکثر راہ کھوٹی کرتے ہیں
اس تعفن زدہ ماحول میں تو
سانس لینا بھی دوبھر ہے
اور لوگ اسے زندگی کہتے ہیں

Friday, March 19, 2010

خوشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از روشنی

خوشی ----احساس کے بے کراں سمندر کا

اک گمنام جزیرہ ہے

اَن دیکھا اور ان جانا سا سفر

سبھی اُس کی تلاش میں بھٹکتے ہیں

پر کبھی پہنچ نہیں پاتے

آخر تھک ہار کر --- بےبس ہوکر شاید

پڑاو ہی کو منزل سمجھ لیتے ہیں

میں اور تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از روشنی

میں اور تم
ندی کے دوکنارے
تعلق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِن کناروں میں بہتا پانی
اِسے میلا نہ ہونے دو

Wednesday, March 17, 2010

ایک شعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آدم خور درندے فارغ بیٹھ گئے

جب سے دہشت پر مائل انسان ہُوئے

Wednesday, March 10, 2010

خوف ۔۔۔۔۔۔۔۔از روشنی

اک خوف بچپن سے میرے من میں چھُپا ہے
کھودینے کا خوف۔۔۔۔۔۔۔
میں نے برسوں کِسی کو اپنا نہ کیا
شاید مجھ میں کھودینے کی ہمت نہیں تھی
میں نے کبھی خوشیوں کی خواہش بھی نہیں کی
خوشیاں ہمیشہ ریت کی مانند میری مٹھی سے پھسل جاتی تھیں
تب میں نے خوشیاں بانٹنا سیکھا
اور دن بدن مضبوط تر ہوتی گئی
پر اب۔۔۔۔۔۔۔۔
میری ذات کے قلعے میں دراڑ پڑنے لگی ہے
۔۔۔۔۔
مجھے پھر سے خوشیوں کی خواہش ہونے لگی ہے
!!!!!!!!!!!!
اور وہ بچپن کا خوف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, March 8, 2010

Ego..........

کبھی سوچا ہے تم نے یہ
اگر ہم مِل بھی جائیں تو
گزارا ہونہیں سکتا
نہ تم خود کو میرے سانچے میں ڈھالوگے
نہ میں اپنی روِش کو چھوڑ پاوں گی
تم اپنے عشق پہ نازاں
مَیں اپنے حُسن پہ فاخر
یوں ہم دونوں
اپنی اپنی جگہ پہ
انا کے خول میں لپٹے ہوئے
ریشم کے کیڑے ہیں
ناممکن کمپرومائز
نہ سمجھوتے کی گنجائش
تو کیا بہتر نہیں ہے یہ
کہ ہم دونوں
بچھڑنے کی اذیت سے ہی نہ گزریں
نہ تم کو یاد آوں میں
نہ مجھ کو یاد آو تم
تمھیں میں بھول جاوں اور
مجھے بھی بھول جاو تم

Friday, February 12, 2010

خوبصورت موڑ۔۔۔۔۔ ساحر لدھیانوی

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں


نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں میں
نہ ظاہر ہو تمھاری کشمکمش کا راز نظروں سے
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

تمھیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
میرے ساتھ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمھارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
چلو اِک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

تعارف روگ بن جائے تو اُس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اُس کا توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے تکمیل تک لانا نہ ہو ممکن
اُسے اِک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

Wednesday, February 10, 2010

کبھی برسوں نہیں ملتے اک ذرا سی رنجش میں۔۔۔۔نوشی گیلانی

کبھی ہم بھیگتے ہیں چاہتوں کی تیز بارش میں
کبھی برسوں نہیں ملتے اک ذرا سی رنجش میں

تمھی میں دیوتاوں کی کوئی خُو بُو نہ تھی ورنہ
کمی کوئی نہیں تھی میرے اندزِ پرستش میں

یہ پہلے سوچ لو پھر اور بھی تنہا نہ ہوجانا
اُسے چھُونے کی خواہش میں اُسے پانے کی کوشش میں

بہت سے زخم ہیں دل میں مگر اک زخم ایسا ہے
جو جل اٹھتا ہے راتوں میں جو لو دیتا ہے بارش میں

Tuesday, February 9, 2010

فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابن انشا

فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں

فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابھی اور ہو اتنی آدھی ہم نے چھپائی ہو

فرض کروتمھیں خوش کرنےکےڈھونڈےہم نےبہانے ہوں
فرض کرو یہ نین تمھارے سچ مچ کے میخانے ہوں

فرض کرویہ روگ ہو جھوٹا اور جھوٹی ِپیت ہماری ہو
فرض کرو اس ِپیت کے روگ میں سانس بھی ہم پہ بھاری ہو

فرض کرو یہ جوگ بجوگ ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو بس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایا ہو

Friday, January 29, 2010

.........................


بہار آئی تو جیسے ایک بار

لوٹ آئے ھیں پھر عدم سے

وہ خواب سارے شباب سارے

جو تیرے ھونٹوں پہ مر مٹے تھے

جو مٹ کے ہر بار پھر جئے تھے

نکھر گئے ھیں گلاب سارے

جو تیری یادوں سے مُشکبو تھے

جو تیرے عشاق کا لہو تھے

ابل پڑے ھیں عذاب سارے

ملال احوال دوستاں بھی

خمارآغوش مہ وشاں بھی

خمار خاطر کے باب سارے

ترے ہمارے

سوال سارے جواب سارے

بہار آئی تو کھل گئے ھیں

نئے سرے سے حساب سارے

سارے جھگڑے انا کے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔فیض


قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں
سارے جھگڑے انا کے ہوتے ہیں

بات نیت کی ہے صرف ورنہ
سارے وقت دعا کے ہوتے ہیں

بھول جاتے ہیں مت برا کہنا
لوگ پتلے خطا کے ہوتے ہیں

وہ بظاہر جو کچھ نہیں کہتا
ان سے رشتے بلا کے ہوتے ہیں

وہ ہمارا ہے اس طرح سے فیض
جیسے بندے خدا کے ہوتے ہیں

اتنا بُر ا سلوک میری سادگی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محسن نقوی

منسوب تھے جو لوگ میری زندگی کے ساتھ
اکثر وہی ملے ہیں بڑی بے رخی کے ساتھ

یوں تو میں ہنس پڑا ہوں تمہارے لیے مگر
کتنے ستارے ٹوٹ گرے اک ہنسی کے ساتھ

فرصت ملے تو اپنا گریباں بھی دیکھ لے
اے دوست یوں نہ کھیل میری بے بسی کے ساتھ

چہرے بدل بدل کے مجھے مل رہے ہیں لوگ
اتنا بُرا سلوک میری سادگی کے ساتھ

Friday, January 15, 2010

تو ہی تھا یا کوئی ہوبہو۔۔۔۔۔۔

وہ خیال تھا کوئی دھنک نما یا کوئی عکس تھا میرے رُو برو
جو مجھے ہر طرف سے تُو لگا وہ تُو ہی تھا یا کوئی ہوبہو

بیان میں تھی وہ چاشنی کہ مہک رہا تھا حرف حرف
جیسے خوشبووں کی زبان میں کوئی کررہا تھا گفتگو

نہیں کچھ خبر کہ کس گھڑی تیرے راستوں کا سرا ملے
تیرے نقش ِ پا کی تلاش میں لگی تو ہوئی ہے میری جستجو

بس دیکھنا ہے کہ کس طرح وہ جی رہا ہے میرے بغیر
یوں تو دل میں ہے وہ آج بھی جسے ڈھونڈتا ہوں کوبکو

Thursday, January 14, 2010

تیرے بعد بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہی گردشیں وہی پیچ و خم تیرے بعد بھی

وہی حوصلے میرے دم بدم تیرے بعد بھی

تیرے ساتھ تھی تیری ہر جفا مجھے معتبر

تیرے سارے غم مجھے محترم تیرے بعد بھی

میرے ساتھ ہے میری ہر خوشی تیری منتظر

تیری منتظر میری چشم ِ نم تیرے بعد بھی

تو کسی اور کے قلب ِ آرزو میں ڈھل گیا

میں نہ ہو سکا کبھی خود میں ضم تیرے بعد بھی

میرے بعد کتنے ہی رُوپ تُو نے بدل لیے

میں وہی ہوں اب بھی تیری قسم تیرے بعد بھی

تمھاری ذات کے ہجے۔۔۔۔۔ہماری انگلیوں سے ہی نہیں جاتے

تمھاری ذات کے ہِجے

ہماری انگلیوں سے ہی نہیں جاتے

کسی کا نام لکھنا ہو

تمھارا نام لکھتے ہیں
کسی کی بات کرنی ہو
تمھاری بات کرتے ہیں
کوئی بادل گرج جائے
کہیں بارش برس جائے
تو اس کو بھی
مرے ہمدم
تمھارے شہر کی برسات لکھتے ہیں
تمھاری ذات کے ہجے
ہماری انگلیوں سے ہی نہیں جاتے

Tuesday, January 12, 2010

ابن انشا کی یاد میں۔۔۔۔

آج کی پوسٹ ابن انشا کی یاد میں۔۔۔
کل بروز 11 جنوری ابن انشا کی برسی منائی گئی۔۔۔۔ان کی پنجابی نظم جو کہ شاید غیر مطبوعہ بھی ہے، اردو روشنی کے قارئین کی نذر۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تینوں دسیا تے توں ہسنا اے
اسیں تینوں کجھ نئیں دسنا اے
بس اگ وچ اپنی جلنا اے
تے آپے پکھا جھلنا اے

اسیں پکے آں تو خام کڑے
کجھ ہویا ؟ نئیں کی ہونا سی
اک دن دا ہسنا رونا سی
او ساگر چھلاں ایویں سی
او ساریاں گلاں ایویں سی

پر چرچا کرنا تمام کڑے
اسیں کہندے کہندے مرجانا
تو ہسدے ہسدے مرجانا
اسیں اجڑے اجڑے رہ جانا
توں وسدے وسدے مرجانا
ہاں سوچ لیا انجام کڑے

اک گھر وِچ دِیوا بلدا ای
کی ویکھ سندیسے گھلدا ای
کیوں پورب پچھم جانی ایں
کیوں من اپنا بھٹکانی ایں
گھر آجا پے گئی شام کڑے

Wednesday, January 6, 2010

کہ بات چھیڑوں کہاں کہاں سے۔۔۔۔۔محسن نقوی

وہ اجنبی اجنبی سے چہرے وہ خواب خیمے رواں دواں سے
بسے ہوئے ہیں ابھی نظر میں سبھی مناظر دھواں دھواں سے

یہ عکس ِ داغ ِ شکست ِ پیماں وہ رنگ ِ زخم ِخلوص ِ یاراں
میں غم گساروں میں سوچتا ہوں کہ بات چھیڑوں کہاں کہاں سے

یہ سنگریزے عداوتوں کے وہ آبگینے سخاوتوں کے
دل ِ مسافر قبول کرلے ملا ہے جو کچھ جہاں جہاں سے

بچھڑنے والے! بچھڑ چلا تھا تو نسبتیں بھی گنوا کے جاتا
تیرے لیے شہر بھر سےاب بھی میں زخم کھاوں زباں زباں سے

مری محبت کے واہموں سے پرے تھا تیرا وجود ورنہ
جہاں جہاں تیرا عکس ٹھہرا میں ہوکے آیا وہاں وہاں سے

تُو ہمسفر ہے نہ ہم نفس ہے کسے خبر ہے کہ تُو کدھر ہے
میں دستکیں دے کے پوچھ بیٹھا مکیں مکیں سے مکاں مکاں سے

ابھی محبتوں کا اسم ِ اعظم لبوں پہ رہنے دے جان ِ محسن
ابھی ہے چاہت نئی نئی سی ابھی ہیں جذبے جواں جواں سے


Tuesday, January 5, 2010

حَسَن کوزہ گر2 ۔۔۔۔ن-م راشد

اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
میں کہاں تک بھولوں؟
زور ِ مَے تھا، کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی
کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا _____

تجھے حیرت نہ ہوئی!
کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئی شیشوں پر
اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت __
تجھے حیرت نہ ہوئی!

اے جہاں زاد،
میں کوزوں کی طرف، اپنے تغاروں کی طرف
اب جو بغداد سے لوٹا ہوں،
تو مَیں سوچتا ہوں _____
سوچتا ہوں: تو مرے سامنے آئینہ رہی
سر ِ بازار، دریچے میں، سر ِبستر ِ سنجاب کبھی
تو مرے سامنے آئینہ رہی،
جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے
اپنی ہی صورت کے سوا
اپنی تنہائی ِ جانکاہ کی دہشت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے
اِس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں
اب ایک ہی صورت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟
لوح آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے
خط کیوں نہ لکھوں؟

اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
مجھے پھر لائے گی؟
وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟
وقت اِک ایسا پتنگا ہے
جو دیواروں پہ آئینوں پہ،
پیمانوں پہ شیشوں پہ،
مرے جام و سبو، میرے تغاروں پہ
سدا رینگتا ہے

رینگتے وقت کے مانند کبھی
لوٹ آئے گا حَسَن کوزہ گر ِ سوختہ جاں بھی شاید!

اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد،
تو میں سوچتا ہوں:
شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی___
جسے تنتی چلی جاتی ہے، وہ جالا تو نہیں ہوں مَیں بھی؟
یہ سیہ جھونپڑا مَیں جس میں پڑا سوچتا ہوں
میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی
بس ایک نشانی ہے یہی
ان کے فن، ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی
مَیں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت
آکے مجھے دیکھتی ہے
دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے
میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں ____
کھیل اِک سادہ محبّت کا
شب و روز کے اِس بڑھتے ہوئے کھوکلے پن میں جو کبھی
کھیلتے ہیں
کبھی رو لیتے ہیں مل کر، کبھی گا لیتے ہیں،
اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں
دل کے جینے کے بہانے کے سوا ___
حرف سرحد ہیں، جہاں زاد، معانی سرحد
عشق سرحد ہے، جوانی سرحد
اشک سرحد ہیں، تبسّم کی روانی سرحد
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں ____
(دردِ محرومی کی،
تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟)

میرے اِس جھونپڑے میں کتنی ہی خوشبوئیں ہیں
جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں
اسی اِک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں ____
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اِس گرد کی خوشبو بھی ہے
میرے افلاس کی، تنہائی کی،
یادوں، تمنّاؤں کی خوشبو ئیں بھی،
پھر بھی اِس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں ___
یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے، گندہ ہے، پراگندہ ہے
ہاں، کبھی دور درختوں سے پرندوں کے صدا آتی ہے
کبھی انجیروں کے، زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے
تو مَیں جی اٹھتا ہوں
تو مَیں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا!
ورنہ اِس گھر میں کوئی سیج نہیں، عطر نہیں ہے،
کوئی پنکھا بھی نہیں،
تجھے جس عشق کی خو ہے
مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!

تو ہنسے گی، اے جہاں زاد، عجب بات
کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں
اور اشیا کا پرستار بھی مَیں
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں!
تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے
میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟
اے جہاں زاد،
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا
اس کا نہیں کوئی جواب
یہی کافی ہے کہ باطن کے صدا گونج اٹھے!

اے جہاں زاد
مرے گوشہء باطن کی صدا ہی تھی
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں
کے کنارے گونجی
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا
صدیوں کا کنارا نکلا
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے،
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو ہر اِک فن کا
ہر اِک فن کے پرستار کا
آئینہ ہے

Friday, January 1, 2010

راتیں جاگیں کریں عبادت۔۔۔۔بابا بلھے شاہ۔۔۔۔۔۔

راتیں جاگیں کریں عبادت

راتیں جاگن کُتے

تیتھوں اُتے

بھونکنوں بند مول نہ ہندے

جا ، رڑی تے سُتے

تیتھوں اُتے

خصم اپنے دا، در نہ چھڈدے

بھانویں وجن جُتے

تیتھوں اتے

بلھے شاہ کوئی رخت ویہاج لے

نئیں تے بازی لے گئے کتے

تیتھوں اتے

اب کے سال کچھ ایسا کرنا۔۔۔ سال 2010 کی آمد پر۔۔۔مبارک باد

اب کے سال کچھ ایسا کرنا

اپنے پچھلے بارہ ماہ کے

دکھ سکھ کا اندازہ کرنا

ساری صبحیں حاضر کرنا

ساری شامیں پاس بلانا

اپنے گزرے اک اک پل کے

اپنے بیتے اک اک کل کے

دکھ سکھ کا اعادہ کرنا

پھر محتاط قیاس لگانا

گر تو خوشیاں بڑھ جاتی ہیں

پھر تم کو میری طرف سے

آنے والا سال مبارک

اور اگر غم بڑھ جائیں تو

مت بے کار تکلف کرنا

میری خوشیاں تم لے لینا

مجھ کو اپنے غم دے دینا

اب کے سال کچھ ایسا کرنا